کچھ چرس کی حمایت میں

DW ڈی ڈبلیو بدھ 2 دسمبر 2020 15:20

کچھ چرس کی حمایت میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 دسمبر 2020ء) ہم نے بات آئی گئی کر دی، لوگوں کے استفسار پر بھی توبہ توبہ کی اور ان کو سمجھایا کہ اس طرح کے قبیح قسم کے موضوعات پر ہم سے گفتگو کرنے سے پرہیز کریں، ہم عزت دار لوگ ہیں۔ کہیں کسی نے سن لیا کہ ہم ایسے غیر اخلاقی موضوعات پر لکھ رہے ہیں تو کیا سوچیں گے؟

ابھی اسی کشمکش میں گرفتار تھے کہ سندھ ہائی کورٹ میں داخل ایک پٹیشن نے ہماری توجہ پھر اپنی جانب کھینچ لی۔

اس پٹیشن میں چرس کو قانونی تحفظ دینے پر بات کی گئی تھی۔ اعلی عدالت نے تو اس کو مسترد کر دیا لیکن ہمارے ذہن نےاس کو خارج کرنے سے انکار کر دیا۔ آخر کار ہم نے ان فاضل مدعی کی معقولات کو سننے کی جسارت کر ہی ڈالی۔ اس فردِ درویش نے انتہائی بردباری اور دانش مندی کے ساتھ چرس کے فضائل پر دھڑلے سے گفتگو کی۔

(جاری ہے)

ان کی باتوں میں اس قدر فصاحت تھی کہ ہم بھی قائل ہی ہو گئےکہ آدمی کی شرافت کا معیار جانچنےکا واحد غیر جانب دار پیمانہ یقینا چرس سے بہتر کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔

چرس کو اس پہلو سے کبھی جانچا ہی نہ تھا، ہم خامخواہ اس کے خلاف محاذ بنائے بیٹھے تھے۔

ابھی کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے، ہماری ہمسائی ادھیڑ عمر بےبی باجی کی ساس کسی مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئیں۔ اللہ بخشے بہت ہی معصوم اور سیدھی سادھی تھیں۔ بس کبھی کبھار ان کے پوپلے منہ سے مغلظات نکل جاتیں تھیں۔ اس کی ہرگز یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ بد اخلاق یا بد زبان تھیں۔

قصور ہمیشہ ہماری بے بی باجی کا ہی ہوتا۔ کبھی اپنی ساس کو سمجھ ہی نہیں سکیں۔ میں تو ہمیشہ کہتی ہوں چاہے خون میں شکر کتنی بڑھ جائے، فشارِ خون سے رگیں پھٹی بھی جا رہی ہوں، پھر بھی کھانا چٹ پٹا ہی بننا چاہیے اور چائے میٹھی۔

اب اگر کسی کی بہو کو اتنا بھی سمجھ نہیں آتا تو تف ہے۔ خیر جناب اب کون سمجھائے؟ ایک دن بے چاری ساس اماں انتہائی خوش گفتاری سے پھیکی چائے اور سیٹھا سوپ بنانے والی کی تعریف کر رہی تھیں۔

دفعتاً پڑوسن خالہ بھی ان کی سن گن لینے پہنچ گئیں۔ منہ سے پھول جھڑتے دیکھے تو فوراً اٹھیں اور اپنے گھر کو دوڑیں۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک سفوف سے بھری کانچ کی بوتل لے کر دوبارہ وارد ہو گئیں۔ ہانپتے کانپتے بوتل بے بی باجی کے حوالے کی اور کہا ایک چٹکی بھرکے دن میں تین دفعہ چٹا دیا کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔

واقعی تین ہی دن میں سب ٹھیک ہو گیا۔

ٹھیک تیسرے ہی دن بےبی باجی کی ساس دارِ فانی کوچ کر گئیں۔ ہم تو دل سے پڑوسن خالہ کے مرید ہو گئے۔ زیادہ دیر برداشت نہ ہوا، ہم پڑوسن خالہ سے پوچھ ہی بیٹھے آخر اس بوتل میں کون سی دوا تھی؟ خالہ ہم پر بہت ناراض ہوئیں۔ ''تم کو کیا لگتا ہے ہم نے ان کو زہر دیا ہے؟ ہم نے اپنے گاؤں سے جڑی بوٹی منگوا کر دی تھی کہ ان کی طبیعت صحیح ہو جائے۔‘‘ ہم نے فوراً بوتل کھول کر سونگھ لی۔

تھوڑا سٹپٹا گئے، لیکن اپنا منہ بند ہی رکھا۔

اب ذرا ادھر ادھر نظر بھی دوڑانی شروع کی۔ بہت دور نہیں جانا پڑا، ایک شام چائے کا کپ لے کر چھت پر چڑھ گئے۔ ہماری رہائش شہر کے ایک گنجان آباد شریفوں کے محلے میں ہے۔ اسی مارے ہمارے گھر سے نکلنے پر پابندی بھی ہے۔ بس کبھی کبھار چھت پر کپڑے سکھانے کے بہانے چڑھ جاتے ہیں اور دھلی ہوئی صاف چادروں کے پیچھے اماں کے ساتھ کھڑے ہو کر چائے پی لیتے ہیں۔

ہمارے یہاں شرافت کے دائرے میں رہ کر اتنی ہی آزادی میسر ہے۔

خیر جناب اس دن بھی ہم اپنی آزادی کے مزے اٹھا رہے تھے کہ ایک عجیب سی مہک ہماری ناک سے ٹکرائی۔ یہ وہی مانوس مہک تھی، جو ہم نے بے بی باجی کے یہاں سونگھی تھی۔ ہم بھی مہک کی سمت میں دیکھنے لگے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ساتھ والی معصوم سی خالہ کا سب سے لاڈلا، شریف بیٹا اپنے کسی مہمان کے ساتھ چھت پر کھڑا سگریٹ بھر رہا ہے، ہم تماشا دیکھتے رہے۔

آن کی آن میں انہوں نے تین چار سگریٹ پھونک ڈالے۔ ہمیں کچھ شک سا گزرا۔ اگلے دن ہم خالہ کے گھر جا پہنچے تاکہ ان کے بیٹے کی اس حرکت کے بارے میں بتائیں۔

ہم نے خرامان خراماں پڑوسن خالہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ خالہ کو تو جیسے علم ہی تھا کہ شاید ان کے لاڈلے کو رنگے ہاتھوں ہم نے پکڑ لیا ہے۔ آن کی آن میں انہوں نے ہمیں بے وقت کی ایسی سنائی کہ ہمیں اپنے رویے پر بہت شرمندگی ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے کچھ نہیں ہوتا، ان کے خاندان میں سب چرس پیتے ہیں اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے خاندان کی شرافت پر انتہائی دل موہ لینے والی گفتگو بھی کی۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے اس شریف سپوت کا دوسری جگہ رشتہ بھی کسی بہت اچھے پڑھے لکھے اور شریف خاندان میں طے پا گیا ہے۔ لڑکی والے اتنے شریف ہیں کہ ان کے پاس بڑا سا مکان، لمبی سی گاڑی اور بہت پیسہ ہے۔

پڑوسن خالہ نے مجھے اچھی طرح باور کروا دیا کہ چرس پینا کہیں سے بری عادت نہیں بلکہ اس کو برا کہنے والے برے ہیں۔

حال ہی میں انہوں نے چرس کے خلاف گفتگو کرنے پر اپنی ناخلف بہو کو دھکے دے کر گھر سے نکالا ہے۔ وہ تو ان کی بہو تھی، ہمیں تو وہ سیدھا جہنم رسید بھی کر سکتی تھیں۔ بس اس دن سے ہماری روح فنا ہے۔ ہمیں شدت سے احساس ہوا کہ آئندہ کسی کو چرس پیتے دیکھا جائے تو ہرگز شکایت نہ لگائی جائے بلکہ اس کو سراہا جانا چاہیے اور کیوں نہ سراہیے آخر شرافت کا نیا معیار بھی تو یہی ہے۔

پچھلے زمانوں میں جب شادی بیاہ کی بات شروع کی جاتی تھی تو جہاں لڑکی کے گن، گھرداری اور دیگر امورِ خانہ داری کو اچھی طرح پرکھا جاتا تھا۔ وہیں لڑکے کے خاندان کی شرافت، اس کی کمائی کے ذرائع وغیرہ پر خاصی توجہ دی جاتی تھی۔ اس بات پر بھی لڑکے کی کافی تفتیش کی جاتی تھی اور یہ بھی پرکھا جاتا تھا کہ وہ کسی قسم کے نشے میں ملوث تو نہیں؟

لیکن مجھے اب یقین ہے کہ مستقبل میں ایسا بالکل نہیں ہو گا، اب شرافت کا معیار بغیر چرس کے جانچا ہی نہیں جائےگا۔

ہو سکتا ہے مستقبل میں رشتہ پکا ہوا کرے تو مٹھائی کے بجائے چرس کے سگریٹ بانٹے جائیں۔ عین ممکن ہے کہ حق مہر میں بھی چرس کی معقول مقدار کل عندالطلب لکھوائی جانے لگے۔ عین ممکن ہے کہ بجائے زیورات کے لڑکی کے والدین ساری عمر کا پیسہ جمع کر کے لڑکی کو اعلی قسم کی چرس جہیز میں دیا کریں۔

اس کے علاوہ شاید روزمرہ کی زندگی میں بھی شرافت کو جانچنے کے معیار کو تبدیل کرنا پڑے گا۔

وہ تمام اقرباء، جو اس کے استعمال کے عادی ہیں، ان کو خصوصی عزت اور مرتبت سے نوازا جائے، ان کو اکثر اپنے گھر بلا کر اپنی عزت کو بڑھاوا دیا جائے۔ جس طرح ہم لوگ بکرے کا گوشت کھا کر فخر محسوس کرتے ہیں، وہی فخر ہمیں چرس کے استعمال میں بھی محسوس ہونا چاہیے۔

اب جب حلقہ احباب میں اگر کوئی پان، سگریٹ، چھالیہ وغیرہ پیش کرے تو اس کو ناک سکیڑ کر بتانا پڑے گا کہ ہم چرس سے کم بات نہیں کرتے۔ خیر اب تو تمباکو کو بھی فصل کا درجہ دینے کی بات کان میں پڑنے لگی ہے۔ بہت محتاط ہو کر گفتگو کرنی پڑے گی۔ چلیے بہت ہو گیا، ایسا نہ ہو کہ ہمارے منہ سے سگریٹ کے خلاف بھی کچھ نکل جائے اور ہماری بچی کھچی عزت بھی خاک میں مل جائے۔