ٹوبیکو کی قانونی صنعت کے تحفظ کیلئے قوانین کا یکساں اطلاق کیا جائے ،محمد ذیشان

سگریٹ کی غیرقانونی برانڈز مارکیٹ میں بلا روک ٹوک فروخت سے حکومت کو محصولات کی مد میں سالانہ 70 سے 77ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے،ڈائریکٹر فلپ مورس

پیر 12 اپریل 2021 23:52

راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 اپریل2021ء) فلپ مورس پاکستان کے ڈائریکٹر فنانس محمد ذیشان نے حکومت پر زور دیا ہے کہ حکومت کو ریونیو اور عوام کو روزگار فراہم کرنے والی ٹوبیکو کی قانونی صنعت کے تحفظ کے لیے حکومتی پالیسیوں اور قومی قوانین کا پوری انڈسٹری پر یکساں اطلاق کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس ادا کرنے والی تمباکو کی صنعت ان شعبوں میں شامل ہے جو قوانین کے یکساں اطلاق نہ ہونے اور ٹیکس چوری کا سبب بنے والی تیزی سے فروغ پاتی غیرقانونی تجارت کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہے۔

انہوں نے کہا کہ سگریٹ واحد شعبہ ہے جس میں غیرقانونی تجارت کا حجم انڈسٹری کے 40فیصد کے برابر ہے، سگریٹ کی غیرقانونی برانڈز مارکیٹ میں بلا روک ٹوک فروخت کی جارہی ہیں جس سے حکومت کو محصولات کی مد میں سالانہ 70 سے 77ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کے حجم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے سال 2013میں ٹیکس چوری کا سبب بننے والی غیرقانونی سگریٹ کا مارکیٹ شیئر 23فیصد تھا تاہم غیرقانونی تجارت کی روک تھام کے لیے پالیسیوں اور سسٹم کے عدم نفاز کی وجہ سے ٹوبیکو کی صنعت کا نصف مارکیٹ شیئر غیرقانونی تجارت کے شکنجہ میں آچکا ہے۔

محمد ذیشان نے کہا کہ اگر نتائج حاصل کیے بغیر پالیسیوں کا بلاسوچے سمجھے اطلاق کیا جاتا رہا تو خدشہ ہے کہ ٹیکس چوری کا سبب بننے والی غیر قانونی سگریٹ کا مارکیٹ شیئر مزید فروغ پائے گا۔ یہ صورتحال قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ٹیکس ادا کرنے والی ٹوبیکو کی صنعت بحران کا شکار ہوگی بلکہ تمباکو نوشی سے متعلق قوانین پر عمل درآمد اور معیشت کو دستاویزی شکل دینے کی حکومتی کوششوں کو بھی دھچکہ پہنچے گا۔

پاکستان میں ٹوبیکو انڈسٹری میں قوانین کے عدم نفاز اور ٹیکس چوری کا اندازہ اس صورتحال سے لگایا جاسکتا ہے کہ مجموعی ٹیکسوں میں 98فیصد کی حصہ دار 2کمپنیوں کا مارکیٹ شیئر 60فیصد ہے جبکہ 40فیصد مارکیٹ شیئر کی حامل 50سے زائد کمپنیاں مجموعی ٹیکسوں کا صرف 2فیصد ادا کررہی ہیں۔ ذیشان نے کہا کہ خوش قسمتی سے ٹوبیکو انڈسٹری میں ٹیکس ادا کرنیو الی کمپنیوں کی اہمیت اور ٹیکس چوری کا سبب بننے والی کمپنیوں سے پہنچنے والے نقصان کا ادراک ملک میں اعلیٰ سطح تک پایا جاتا ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی سگریٹ سیکٹر میں ٹیکس چوری کے رجحان کی تصدیق کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیکس چوری کا سبب بننے والی سگریٹ کی غیرقانونی تجارت کے حجم میں تیزی سے اضافہ ملکی قوانین اور پالیسیوں کے موثر نفاز نہ ہونے کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے قانونی اور غیرقانونی سگریٹ کی قیمت میں فرق 100فیصد تک آچکا ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والی انڈسٹری فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور ہیلتھ لیوی کے اطلاق کے لیے حکومت کی مقر ر کردہ کم از کم 63 روپے فی پیکٹ قیمت کی مکمل پاسداری کرتی ہے دوسری جانب ملک بھر میں غیرقانونی سگریٹ ٹیکس چوری کا ذریعہ بننے والی سگریٹ 25روپے قیمت پر فروخت کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوانین کے مطابق فروخت کی جانے والی سگریٹ ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگی سے مہنگی تر ہوتی جارہی ہیں جبکہ غیر رقانونی سگریٹ تک عوام کی رسائی آسان سے آسان تر ہورہی ہے جو ملک میں تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے عائد کی جانے والی لیویز اور اقدامات کو غیر موثر بنارہی ہے۔ درحقیقت سگریٹ پر ٹیکسوں کی بھرمار غیرقانونی کمپنیوں کے لیے ایک ترغیب اور مراعت ثابت ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریسرچ سے ثابت ہوتا ہے کہ سگریٹ پر ٹیکسوں میں متواتر اضافہ کے باوجود ملک میں سگریٹ کی کھپت ایک ہی سطح پر برقرار ہے، ہر مرتبہ جب حکومت سگریٹ پر ٹیکس بڑھاتی ہے سگریٹ نوشی کرنے والے افراد ٹیکس چوری کرکے فروخت کی جانے والی سستی اور غیرقانونی برانڈز کی جانب منتقل ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ ٹیکسوں میں اضافہ سگریٹ نوشی کے رجحان کو کم کرنے میں اس وقت تک کارآمد ثابت نہیں ہوگا جب تک کہ غیرقانونی سگریٹ کی تجارت کا خاتمہ نہ کردیا جائی

متعلقہ عنوان :