مالدیپ کے سابق صدر بم حملے میں بال بال بچے

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 7 مئی 2021 10:20

مالدیپ کے سابق صدر بم حملے میں بال بال بچے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 مئی 2021ء) بحر ہند میں واقع جزیرہ مالدیپ کے دارالحکومت مالے میں جمعرات کی شام کوسابق صدر 53 سالہ محمد نشید پر مبینہ طور پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تاہم وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے۔

مالدیپ حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر محمد نشید اپنی کار میں سوار ہو رہے تھے کہ قریب ہی کھڑی ایک موٹر سائیکل میں نصب بم پھٹ گیا۔

”نشید اس قاتلانہ حملے میں بچ گئے۔ وہ زخمی ہوگئے ہیں لیکن ان کی حالت مستحکم ہے۔" فی الحال ان کا علاج مالے کے اے ڈی کے ہسپتال میں چل رہا ہے۔

محمد نشید کون ہیں؟

جمہوریت کے علمبردار محمد نشید اس وقت ملکی پارلیمان کے اسپیکر ہیں۔ وہ اس عہدے پر مئی 2019 میں فائز ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

اس سے قبل وہ اس سنی اکثریتی ملک میں سن 2008 میں ملک کے جمہوری طور پر پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔

وہ سن 2012 تک اس عہدہ صدارت پر فائز رہے اور انہیں ایک بغاوت کے نتیجے میں اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تھا۔

محمد نشید کو مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور انہیں دہشت گردی کے الزام میں تیرہ برس قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سیاسی انتقام پرمبنی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے محمد نشید کو ضمیر کا قیدی قرار دیا ہے۔

جب محمد نشید کو علاج کے لیے جیل سے ضمانت پر رہائی ملی تو وہ ملک چھوڑ کر فرار ہوگئے اور برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔ وہ سن 2018 میں مالدیپ واپس لوٹے اور سن 2019 میں ملکی پارلیمنٹ، مجلس عوام، کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ یہ مالدیپ میں دوسرا سب سے طاقت ور سیاسی عہدہ ہے۔

مالدیپ: پرتعیش ریزارٹ اور اسلام پسندی

مالدیپ کے وزیر خارجہ عبداللہ شاہد نے محمد نشید پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا”اس طرح کے بزدلانہ حملوں کے لیے ہمارے سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

میری دعائیں اور نیک خواہشات سابق صدر نشید اور ان دیگر افراد نیز ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں جو اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں۔"

چھبیس جزائر پر مشتمل مالدیپ چھٹیاں گزارنے کے لیے ایک پرتعیش مقام کے طورپر جانا جاتا ہے تاہم اسے اسلامی انتہا پسندوں کے لیے ایک بہترین پناہ گاہ بھی کہا جا تا ہے، جو اسی وجہ سے سیاسی کشیدگی کا باعث بھی بنتا رہا ہے۔

سابق صدر عبداللہ یامین سن 2015 میں اس وقت زخمی ہو گئے تھے جب ان کی اسپیڈ بوٹ پر نصب ایک بم پھٹ گیا تھا۔ سن 2007 میں اسلام پسند دہشت گردوں نے دارالحکومت میں غیر ملکی سیاحوں کو بم کا نشانہ بنایا تھا جس میں بارہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)