ٹمبر: کیا ایک نیا سونا ہے؟

DW ڈی ڈبلیو پیر 17 مئی 2021 18:20

ٹمبر: کیا ایک نیا سونا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 مئی 2021ء) لکڑی کے تختوں کی قلت کے تناظر میں اس کاروبار میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ یہ قلت محض وقتی ہے کیونکہ اس وقت جرمنی کے مختلف مقامات پر درختوں کے کٹے ہوئے بے شمار تنے موجود ہیں اور صرف ان کو اٹھا کر آرا مشینوں پر پہنچانا باقی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس وقت لکڑی کا کاروبار پرکشش بن گیا ہے اور اس سے منسلک افراد کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ مزدوری کرنے والے کئی لوگوں کو روزگار بھی مل چکا ہے۔

ٹمبر کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ

جرمن دفتر شماریات نے تصدیق کی ہے کہ ملک میں سن 1990 میں اتحاد کے بعد سن 2020 میں لکڑی کے بڑے تختوں کی مانگ میں جو اضافہ ہے وہ حیران کن ہے۔ جرمنی میں مختلف شہروں میں قائم لکڑی کی مارکیٹوں میں مانگ یکساں پائی گئی ہے۔

(جاری ہے)

پندرہ برس قبل جرمنی میں لکڑی کے تختوں کی قیمت کم تھی لیکن اب ملکی اور غیر ممالک میں مانگ کی وجہ سے اس کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔

کیا بار بی کیو کی عادت آپ کی جان بھی لے سکتی ہے؟

ہیمبرگ میں قائم انٹرنیشنل فارسٹری اور فاریسٹ اکنامکس انسٹیٹیوٹ کے ریسرچر ہولگر وائمار کا کہنا ہے کہ کئی مقامات پر لکڑی کے ڈھیر لگے ہیں اور اس کی وجہ تیز رفتار جھکڑوں سے گرنے والے درخت بھی ہیں۔ ان گرنے والے درختوں میں وہ بھی شامل ہیں، جنہیں بیٹلز قسم کے کیڑوں نے نقصان پہنچایا اور اس باعث تنے کمزور ہو گئے تھے۔

محقق ہولگر وائمار کے مطابق لکڑی کے ڈھیروں کی موجودگی نے دفتر شماریات کے اعداد و شمار کی تصدیق کر دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حقیقت میں لکڑی کے موجودہ ڈھیروں کا حجم پچیس فیصد کم محسوس ہوتا ہے کیونکہ وفاقی ریاستوں میں ٹمبر کی سرگرمیوں کا احاطہ نہیں کیا جاتا۔

لکڑی کی ملکی و بیرونی مارکیٹ

جرمنی میں لکڑی کاٹنے والی ملوں کو گاہکوں کی بڑھت کا سامنا ہے کیونکہ انہیں لکڑی کے بڑے بڑے ڈھیروں کے تختے بنانے ہیں۔

لکڑی سے سامان بنانے والی ملیں بھی جرمن مارکیٹ کی طلب کو پورا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ٹمبر مارکیٹ سے وابستہ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران لکڑی سے تیار ہونے والے گھریلو سامان کی طلب بہت زیادہ بڑھی ہے اور بیرون ملک بھی لکڑی کے تختوں کی مانگ بہت زیادہ ہے۔

عالی شان عمارتیں، سیمنٹ نہیں لکڑی کی

اس کی مثال امریکا کی ہے جہاں تعمیراتی سرگرمیاں گزشتہ برس سے بڑھ چکی ہیں اور وہاں بھی تختوں کی مانگ زیادہ ہے۔

جرمنی سے سن 2020 میں امریکا کو چھ لاکھ کیوبک میٹرز لکڑی کے تختے ایکسپورٹ کیے گئے تھے۔ ویسے امریکا زیادہ تر لکڑی کے تختے کینیڈا سے درآمد کرتا ہے۔

ہولگر وائیمار کا بھی خیال ہے کہ طلب بہت زیادہ ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ آرا مشینیں ناکافی ہیں اور اس باعث یہ کسی حد تک ایک ٹیکنیکل مسئلہ بھی بن چکا ہے کیونکہ مشینیں کم ہونے کے ساتھ ساتھ ہنروروں کی شدید قلت بھی ہے، جو ان مشینوں کو چلانا جانتے ہوں۔

آرا مشینوں کی کمی کے ساتھ ساتھ ان کی بندش کی وجہ کمزور ہوتے عالمی اقتصادی حالات بھی ہیں۔

لکڑی کی قلت کا امکان ہے

لکڑی کا کاروبار کرنے والے افراد کا خیال ہے کہ جتنی طلب ہے، اس کے تناظر میں قلت پیدا ہونے کا امکان ہے کیونکہ سپلائی کی رفتار مناسب نہیں ہے۔ اس کاروبار میں تناؤ کی وجہ یہ بھی ہے کہ معیاری لکڑی کی دستیابی بھی کم ہے۔

ایسی رپورٹس بھی ہیں کہ بیرون ملک کاروبار کرنے والے جرمنی سے ملنے والی معیاری لکڑی کے تختوں کی فراہمی پر مسرت کا اظہار کرتے پھرتے ہیں۔

لکڑی کی غیر قانونی تجارت روکنے کی کوششیں

بیرونی ممالک میں جرمن لکڑی کے تختوں کا استعمال کنسٹرکشن انڈسٹری میں کیا جا رہا ہے۔ جرمن کارپینٹرز ایسوسی ایشن کے صدر پیٹر آئشر کا کہنا ہے کہ بیٹلز کیڑوں سے متاثرہ لکڑی غیر معیاری نہیں ہوتی اور یہ وزن برداشت کرنے کی اہل ہے۔

گزشتہ برس چین کو درختوں کے سالم تنوں سے بھرے کئی بحری جہاز روانہ کیے گئے تھے اور رواں برس بھی تنوں کی ایکسپورٹ کا امکان ہے۔

کرسٹی پلاڈسن (ع ح، ا ا)