کسی میں آئین شکن پرویز مشرف کا احتساب کرنے کی جرات نہیں، عرفان صدیقی

پرویز مشرف کے اربوں روپے کے کھاتوں کی منی ٹریل ، آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں کوئی سوال نہیںپوچھ سکتا، کوئی مائی کا لعل اس کی املاک نیلام نہیں کرسکتا، چیئرمین ایوان بالاسینٹ چیئر مین کمیٹی برا ئے تعلیم و تر بیت

بدھ 9 جون 2021 23:36

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 جون2021ء) پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما و ایوان بالاسینٹ چیئر مین کمیٹی برا ئے تعلیم و تر بیت قو می ورثاآف پاکستان کے ممبر مصنف تجزیہ نگار،کالم نگار پروفیسر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ آج کے انقلابی دور اور عہد انصاف میں بھی کسی کی جرات نہیں کہ وہ آخری آئین شکن شخص (پرویز مشرف) کا احتساب کرے۔

اس کے اربوں روپے کے کھاتوں کی منی ٹریل ، آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں کوئی سوال پوچھے اور کوئی مائی کا لعل اس کی املاک نیلام نہیں کرسکتا۔ مجال نہیں کہ کوئی اس کے ریڈوارنٹ جاری کرائے، مہذب ممالک میں دستور کو متبرک دستاویز خیال کیا جاتا ہے۔ عدل وانصاف اور امورِ ریاست کے تمام دھارے اسی سرچشمے سے پھوٹتے ہیں۔ آئین شکنوں کے پاس ہمیشہ ’’ملکی سلامتی اورقومی مفاد کی دلیل ہوتی ہے ، احتساب کی تلوار سے صرف حریفانِ سیاست کے سرقلم ہورہے ہیں ، ان خیالات کا اظہا ر انہوں نے چیئر مین قا ئمہ کمیٹی برا ئے مشر ق وسطہFCCIحا فظ شفیق کا شف سے خصوصی گفتگو کر تے ہو ئے اور اپنے ایک کالم کہ ہم لوگ ہیں جو دائروں میں چلتے ہیں میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ جون کے آتش مزاج مہینے نے بیس سال پرانی راکھ میں دبی چنگاریاں سلگا دی ہیں۔

(جاری ہے)

دائروں کا یہ سفر کب تک رہے گا کیا ہم مستحکم آئینی وقانونی ڈھانچے اور معتبر نظام قانون وانصاف کی شاہراہ مستقیم کی طرف لوٹ سکیں گی انہوں نے مزید کہا کہ ۔ 1953 میں نیم مفلوج گورنر جنرل غلام محمد نے طاقت کے دیوتاوں کی اشیر باد سے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو کھڑے کھڑے گھر بھیج دیا تھا۔ خواجہ صاحب جب کف دردہن غلام محمد کی گالیاں کھا کر نکلے تو اپنی ٹوپی وہیں بھول آئے۔

وہ ٹوپی اور آنے والے کئی وزرائے اعظم کی ٹوپیاں، دستاریں اور دوپٹے غلام محمد کے روحانی ورثا کے مال خانے میں پڑے ہیں۔ ترازوبدست قبیلہ‘‘ رضاکارانہ گرمجوشی اور خوشدلانہ خودسپردگی کے ساتھ اپنی زنبیل سے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کی سبز چادر نکالتا اور آئین کے مزار پر چڑھا کر آئین شکنوں کے دربار میں جاکھڑا ہوتا ہے۔ یہ قوم سات دہائیوں سے ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ اور ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے۔

میں نے تو کل کی کہانی بیان کی ہے ،آخر میں کہا کہ آج کے انقلابی دور اور عہد انصاف میں بھی کسی کی جرات نہیں کہ وہ آخری آئین شکن شخص کا احتساب کرے۔ اس کے اربوں روپے کے کھاتوں کی منی ٹریل مانگے۔ اس سے آمدن سے زائد اثاثوں کے بارے میں کوئی سوال پوچھے۔ کوئی مائی کا لعل اس کی املاک نیلام نہیں کرسکتا۔ مجال نہیں کہ کوئی اس کے ریڈوارنٹ جاری کرائے۔

اس کے باوجود ’’ہز ماسٹرز وائس‘‘ والے کالے توے کی طرح صبح شام ایک ہی راگ الاپا جارہا ہے کہ احتساب سب کا ہوگا، قانون سب کے لئے ہے، ہر ایک کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا۔ احتساب کی تلوار سے صرف حریفانِ سیاست کے سرقلم ہورہے ہیں۔ تازیانے صر ف انہی کی پیٹھ پر برس رہے ہیں۔ قرقیاں اور نیلامیاں انہی کی املاک کی ہورہی ہیں اور اس سب کچھ کو اپنے نامہ اعمال کا حُسن سمجھا جارہا ہے۔ جب تک آئین بے توقیر ہوتا رہے گا اور جب تک ہم قانون وانصاف کے اس دوہرے، دوغلے اور دومنہ والے عفریت سے نجات نہیں پاتے دائروں کا سفر جاری رہے گا۔ ہم انہونیوں کے تلاطم میں گھمن گھیریاں کھاتے رہیں گی