متحدہ عرب امارات کا سعودی عرب کو کھلا چیلنج

ریاض اور ابوظہبی کے درمیان بڑھتے ہوئے تناﺅ کا نتیجہ کیا ہوگا؟یمن میں اثرورسوخ بڑھانے کی جنگ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی بنیادی وجہ بنی.بین القوامی ادارے کی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 7 جولائی 2021 12:45

متحدہ عرب امارات کا سعودی عرب کو کھلا چیلنج
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 07 جولائی ۔2021 ) متحدہ عرب امارات کی جانب سے اوپیک پلس اجلاس کے دوران سعودی عرب اور روس کی جانب 2022تک تیل کی پیدوار کم کرنے کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے کے اعلان پربین القوامی ذرائع ابلاغ ابوظہبی اور ریاض کے درمیان تعلقات میں نئے سعودی تجارتی قوانین کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلافات کا شاخسانہ قراردے رہے ہیں بین القوامی نشریاتی ادارے بی بی سی نے تو اسے امارات کی جانب سے سعودی عرب کو کھلا چیلنج قراردیا ہے.

(جاری ہے)

تیل کی پیداوار میں نمایاں ممالک کی تنظیم اوپیک کی ایک میٹنگ اوپیک پلس کے دوران ابو ظہبی نے سعودی عرب اور روس کی اس پیشکش کو مسترد کیا جس میں 2022 کے آخر تک تیل کی پیداوار کم کرنے کی تجویز دی گئی تھی یہ اختلاف عوامی سطح پر غیر معمولی انداز میں بیان کیا گیا اور اس پیشکش کو متحدہ عرب امارات سے ناانصافی قرار دیا گیا. اس دوران سعودی عرب نے نئی ایئر لائن متعارف کرانے کا اعلان کیا جو اماراتی ایئر لائن ایمریٹس کا مقابلہ کرے گی جبکہ سعودی شہریوں پر متحدہ عرب امارات جانے پر پابندی لگائی گئی ہے سعودی عرب کی جانب سے خلیجی ممالک کے لیے نئے برآمدی قوانین کے اعلان کو متحدہ عرب امارات کے مفاد کے لیے بڑا دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے اسے دونوں ملکوں میں تناﺅ کی علامت سمجھا جا رہا ہے.

علاقائی اتحادیوں کے درمیان یہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں پیدا ہوئی ہے کہ جب دونوں قطر سے اپنے تعلقات بحال کرنے جا رہے ہیں قطر اور سعودی عرب میں اختلافات کے بعد متحدہ عرب امارات کے بھی قطر سے تعلقات خراب ہوئے تھے سعودی عرب نے تیل کی سپلائی کو محدود کرنے کی پیشکش کی جس کی متحدہ عرب امارات نے مخالفت کی سعودی عرب نے سمجھوتے اور سمجھداری سے فیصلے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اس کی پیشکش پر ایک ملک کے علاوہ تمام اراکین متفق ہیں.

واضح رہے کہ پچھلے سال کورونا کی عالمی وبا کے عروج میں تیل کی طلب اور قیمت میں کمی آئی تھی مگر اب دونوں بڑھ چکے ہیں اور یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ اوپیک ممالک کے فیصلے اس رجحان کو متاثر کر سکتے ہیں مگر اوپیک پلس میٹنگ کے دوران دونوں ملکوں میں بیان بازی اس تناﺅ کی پہلی علامت نہیں اس سے ایک ہی دن قبل سعودی عرب نے اپنے شہریوں پر براہ راست متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ممالک جانے پر پابندی لگائی متحدہ عرب امارات وہ واحد خلیجی ملک بن گیا جس پر سعودی عرب نے سفری پابندی لگائی.

سعودی عرب نے ایک نئی ایئر لائن متعارف کرانے کا بھی منصوبہ بنایا ہے تاکہ تیل کے علاوہ دیگر شعبوں جیسے آمد و رفت کی صنعت میں خود کو منوا سکے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ایئر لائن کا مقصد متحدہ عرب امارات کی سرکاری ایئر لائن ایمریٹس کا مقابلہ کرنا ہے ایمریٹس بین الاقوامی پروازوں کے لیے کافی مقبول ہے اور اس کے ساتھ دبئی کو خطے میں آمد و رفت کا مرکز سمجھا جاتا ہے.

5 جولائی کو سعودی عرب نے خلیجی برآمدی قوانین کا اعلان کیا جس میں فری زون میں بننے والے سامان اور اسرائیلی سامان کو خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے ترجیحی محصولات سے الگ کر دیا گیا سعودی عرب نے اس سے قبل فروری میں اعلان کیا تھا کہ وہ ایسی کمپنیوں سے تعاون روک دیں گے جن کے علاقائی صدر دفتر سعودی عرب میں موجود نہیں ہیں اس سے خطے میں دبئی کے کاروباری مرکز کے درجے کو چیلنج کیا گیا.

یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنی راہیں جدا کی ہیں سعودی قیادت میں کارروائیاں بڑھنے کے بعد یہ واضح ہوگیاتھا کہ یمن کے مسئلے پر دونوں ملک ایک جیسی سوچ نہیں رکھتے دونوں ملکوں نے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو مشترکہ دشمن قراردیا تھا تاہم متحدہ عرب امارات سنی مسلک والے جنگجوﺅں کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی پالیسی پر عمل شروع کردیا اوریمن کے کچھ علاقوں میں سٹریٹیجک بحری راستے پر اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کی.

سعودی اور یمنی حکومت نے حوثیوں کو شکست دینے کے لیے جنگجوﺅں سے اتحاد کیا تو متحدہ عرب امارات نے علیحدگی پسند مجلس الانتقالی الجنوبی (ایس ٹی سی) کی حمایت کی سعودی سربراہی میں یہ اتحاد یمنی حکومت کے ساتھ کھڑا تھا جسے اس علیحدگی پسند گروہ سے خطرات لاحق تھے اگست 2019 میں متحدہ عرب امارات نے عدن میں یمنی حکومت کے فوجی مقامات پر حملہ کیا جس سے سعودی اتحاد کی جانب اسے دیے گئے کردار کی براہ راست خلاف ورزی ہوئی.

جس کے بعد متحدہ عرب امارات نے اس فوجی اتحاد سے خود کو الگ کر لیا مگر یمن میں اس کا اثر و رسوخ اب بھی قائم ہے اس کی مثال جنوبی یمن اور سقطری جزیرے پر اس کا اثر و رسوخ ہے اس مسئلہ کا تعلق اس مشکل سے ہے جو سعودی عرب کو گذشتہ ایک دہائی سے اپنے خلیجی اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے میں پیش آئی ہے اس کے نتیجے میں ان چھوٹے خلیجی ممالک میں آپسی مقابلہ بڑھا ہے جو خطے میں اپنی تیل کی پیداوار پر انحصار کرتے ہیں.

تاہم متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن سے یہ سعودی عرب کے مدمقابل ہوا ہے تیل پر دار و مدار اب کم ہو رہا ہے اور یہ توقع کی جارہی ہے کہ یہ رجحان جاری رہے گا کئی شعبوں میں متحدہ عرب امارات ‘سعودی عرب سے آگے ہے کچھ ہی دہائیوں میں ملک نے اپنے مالی، لاجسٹک اور سیاحتی مراکز قائم کیے ہیں اور سعودی عرب سے ان شعبوں میں سبقت حاصل کی ہے اوپیک کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ملکی پیداوار کا تیل پر صرف 30 فیصد انحصار ہے جبکہ سعودی عرب میں یہ 50 فیصد ہے.

ملکی پیداوار کے اعتبار سے سعودی عرب کافی بڑا ملک ہے مگر متحدہ عرب امارات میں فی کس جی ڈی پی سعودی عرب سے لگ بھگ دگنی ہے دونوں ملکوں کے درمیان اتحاد کو خطے میں سب سے مضبوط شراکت داریوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے عالمی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ پرانے علاقائی اختلافات کے حل کے ساتھ نئے اختلافات بھی ابھر رہے ہیں جس میں خطے میں تیل پر انحصار کم کرنے کا ماڈل خطے میں طویل مدتی تعاون پر فوقیت حاصل کرسکتا ہے.