جنوبی افریقہ: پر تشدد مظاہروں اور فسادات میں درجنوں افراد ہلاک

DW ڈی ڈبلیو بدھ 14 جولائی 2021 12:40

جنوبی افریقہ: پر تشدد مظاہروں اور فسادات میں درجنوں افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جولائی 2021ء) جنوبی افریقہ میں سابق صدر جیکب زوما کے حامیوں کی جانب سے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اور ان کی گرفتاری کے خلاف ہونے پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ ملک کے مزید علاقوں تک پھیل گیا ہے۔پرتشدد واقعات میں اب تک کم از کم 72 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

گزشتہ ہفتے شروع ہونے پر تشدد مظاہروں پر قابو پانے کے لیے حکام نے اب فوج کو تعینات کر دیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ایسے بارہ مشتبہ افراد کی شناخت کر لی ہے جو لوگوں کو تشدد اور فساد بھڑ کانے پر آمادہ کر رہے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں اب تک ایک ہزار 234 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔

ان پر تشدد مظاہروں کے دوران بہت سے مقامات پر آتش زنی، شاہراہوں کو جام، اور بڑے و بعض چھوٹے شہروں میں بہت سے تجارتی مراکز کو لوٹنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔

(جاری ہے)

ملک کے صدر نے اس تشدد کو جنوبی افریقہ میں سن 1990کے بعد کا بدترین تشدد قرار دیا ہے۔

گزشتہ ہفتے جب سابق صدر کو جیل بھیجا گیا تو ابتدا میں لوگ سڑکوں میں اس کے خلاف مظاہرہ کرنے نکلے تھے لیکن اس کے بعد تشدد برپا ہونے کے ساتھ لوٹ مار بھی شروع ہو گئی۔ ملک میں پہلے سے عدم مساوات اور غربت کی وجہ سے بے چینی تھی تاہم کورونا وائرس نے زخموں پر نمک چھڑکنے کاکام کیا اور اب لوگوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔

زیادہ متاثر ہونے والے علاقے

ریاستی حکام کے مطابق سب سے زیادہ 26 افراد ریاست کاوا زولو نٹال میں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ گونٹینگ میں 19 افراد مارے گئے ہیں۔ پیر کے روز سویٹو شاپنگ مال میں بھگڈر کا ایک واقعہ پیش جس میں متعدد افراد ہلاک ہوئے۔ حکام کا کہنا ہے کا اس مال سے لاشیں ملی ہیں۔

تشدد اور افرا تفری کی وجہ کیا ہے؟

جنوبی افریقہ کے سابق صدر جیکب زوما کو توہین عدالت کے ایک کیس میں پندرہ ماہ جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔

انہوں نے سزا کے لیے اپنے آپ کو خود جیل حکام کے حوالے کر دیا تھا جس کے بعد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔

عدالت نے جیکب زوما کو ان کے دور میں ہونے والے بدعنوانی کے ایک معاملے کی تفتیش میں حاضر ہونے کو کہا تھا تاہم انہوں نے عدالت کے اس حکم کو نظر انداز کر دیا تھا۔ جیکب زوما کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے ملک میں نسل پرستی کے خلاف زبردست مہم چلائی اور ملک کی آزادی کی جدو جہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔

اس لحاظ سے انہیں ایک پر وقار مرتبہ حاصل رہا ہے تاہم اس سزا کے بعد ان کی شبیہ مجروح ہو گئی ہے اور اس کے رد عمل میں ان کے حامیوں نے زبردست احتجاج کیا۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں یہ سزا سیاسی وجوہات کی بنا پر دی گئی ہے۔وہ اس کا الزام موجودہ صدر سیرل راماپھوسا پر عائد کرتے ہیں۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے)