طالبان نے اسٹریٹیجک برتری حاصل کر لی ہے، امریکہ

طالبان کی جانب سے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرلینا خارج از امکان نہیں ‘ مسئلے کے سیاسی حل کیلئے اب بھی پرامید ہیں امریکی فوج کا انخلاء تقریباً مکمل ہوچکا ہے‘ 95 فیصد انخلاء ہوچکا ہے اور 31اگست تک امریکی فوج کا انخلاء مکمل ہوجائے گا طالبان اہم شہروں پر اپنا دبائو بڑھا دیا ہے‘ آنے والے ہفتوں میں فیصلہ کن معرکہ کے لیے اسٹیج تیار ہوگیا ہے‘سربراہ امریکی فوج

جمعہ 23 جولائی 2021 10:45

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2021ء) امریکی فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرلینا خارج از امکان نہیں ہے تاہم وہ اب بھی مذاکرات سے مسئلے کا سیاسی حل نکل آنے کے تئیں پرامید ہیں۔امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے پینٹاگون میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ میں بظاہر اسٹریٹیجک برتری حاصل کرلی ہے۔

انہوں نے اہم شہروں پر اپنا دبائو بڑھا دیا ہے اور آنے والے ہفتوں میں فیصلہ کن معرکہ کے لیے اسٹیج تیار ہوگیا ہے۔جنرل مارک ملی کا کہنا تھااب قوت ارادی اور افغان قیادت، افغان عوام، افغان سکیورٹی فورسیز اور افغان حکومت کا امتحان ہونے والا ہے۔

(جاری ہے)

جنرل مارک ملی کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب امریکی فوج کا افغانستان سے انخلاء تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔

پینٹاگون کا کہنا ہے کہ 95 فیصد انخلاء ہوچکا ہے اور 31اگست تک امریکی فوج کا انخلاء مکمل ہوجائے گا۔ بائیڈن انتظامیہ نے تاہم اگست کے بعد بھی افغان فورسز کو مالی امداد اور لاجسٹک تعاون جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔جنرل مارک ملی نے کہا کہ طالبان نے افغانستان میں 419 ڈسٹرک سینٹروں میں سے تقریباً نصف پر قبضہ کرلیا ہے اور حالانکہ وہ 34 صوبائی دارالحکومتوں میں سے کسی پر بھی ابھی قبضہ نہیں کرسکے ہیں لیکن ان میں سے تقریباً نصف پر ان کی جانب سے زبردست دباو ہے۔

طالبان کی جانب سے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کو دیکھتے ہوئے افغان سکیورٹی فورسز اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے پر توجہ دے رہی ہے تاکہ کابل سمیت دیگر علاقوں میں آبادیوں کی حفاظت کی جاسکے۔جنرل ملی کا کہنا تھاپچھلے چھ، آٹھ، دس ماہ کے دوران طالبان نے قابل ذکر علاقوں پر قبضہ کرلیا ہے اور وہ جس تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں وہ ایک طرح سے فیصلہ کن رفتار ہے۔

امریکی فوجی سربراہ نے کہا کہ طالبان حالانکہ یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ امریکا کی حمایت یافتہ کابل حکومت پر ان کی فتح ناگزیر ہوچکی ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ افغان فوج او رپولیس نے جو تربیت حاصل کی ہے اورجو اسلحے اس کے پاس ہیں ان کی بنیاد پر وہ مقابلہ کرسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ مذاکرات سے سیاسی حل نکل آئے۔ لیکن وہ ’’طالبان کی جانب سے مکمل قبضہ کرلینے کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔

جنرل ملی کا کہنا تھا،’’میں نہیں سمجھتا کہ کھیل اب ختم ہو چکا ہے۔پریس کانفرنس میں موجود امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا کہ اب ہم افغانستان میں طالبان پر نہیں بلکہ دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔آسٹن کا کہنا تھاہم القاعدہ پر نگاہ رکھیں گے، اس انتہاپسند نیٹ ورک پر جس نے افغانستان کو امریکا پر نائن الیون حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے ایک پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا اور جس کے بعد امریکا کو سن 2001 میں افغانستان پرچڑھائی کرنی پڑی۔

امریکی وزیر دفاع نے کہاہم سب سے زیادہ اس امر کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کر یں گے کہ افغانستان سے تشدد، دہشت گردی ہمارے ملک میں ایکسپورٹ نہ ہونے پائے۔ اس لیے ہم نہ صرف ان صلاحیتوں کو برقرار کھیں گے جو ان خطرات کو بھانپ لے بلکہ ان کے ابھرنے سے پہلے ان کا ازالہ کرسکے۔