افغانستان میں ممکنہ خانہ جنگی کے پیش نظر تاجکستان ایک لاکھ مہاجرین کو جگہ دینے کیلئے تیار

ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے اعلیٰ سطح پر جنگی تیاریوں اور ریاست کی سرحدوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں، قانون نافذ کر نے والے اداروں کو ہدایت

جمعہ 23 جولائی 2021 20:25

کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2021ء) افغانستان میں امریکا کے زیر قیادت فوجی دستوں کے انخلا کے بعد جھڑپوں میں اضافہ ہوگیا ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے تاجکستان کے سینئر حکام نے کہا ہے کہ ان کا ملک تقریباً ایک لاکھ افغان مہاجرین کا خیر مقدم کرنے کی تیاری کررہا ہے۔غیر میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان جنگجو افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ حاصل کرچکے ہیں، پینٹاگون نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان آدھے سے زیادہ افغانستان پر قبضہ حاصل کر چکے ہیں۔

تاجکستان میں ہنگامی کمیٹی کے نائب سربراہ امام علی ابراہیم زدہ نے بتایا کہ سابق سویت ریپبلک میں پہلے ہی سرحد سے متصل صوبے کھاتلون اور گورنو بدخشاں میں دو وئیر ہاؤسز قائم ہیں جہاں مہاجرین کو رکھا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب میڈیا رپورٹ کے مطابق افغانستان میں طالبان کے قبضے میں روز بروز اضافے کو دیکھتے ہوئے تاجکستان نے اپنی مسلح افواج کی جنگی تیاریوں کی جانچ پڑتال کے لیے جمعرات کو ملک میں تاریخ کی سب سے بڑی فوجی مشقیں منعقد کیں۔

تاجکستان کے صدر امام علی رحمن کے حکم پر وسطی ایشیائی ملک کی سیکیورٹی فورسز کے 2 لاکھ 3 ہزار اہلکار صبح چار بجے ٹیسٹ کے لیے الرٹ ہوئے۔تاجکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقے دوشنبے میں فوج کو مزید مستحکم کرنے کے لیے 20 ہزار فوجیوں پر مشتمل دستے کو وہاں منتقل کردیا۔سابق سویت ریاست میں 30 سال کے بعد تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلح افواج کا اس قسم کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ان مشقوں میں تاجک بری، بحری، فضائی فوجی دستوں کی جانب سے استعمال کیے جانے والے تمام ہتھیاروں کی ٹیسٹنگ بھی کی گئی۔صدر امام علی رحمن کی سربراہی میں کیا جانے والا آپریشن تاجکستان کے سرکاری چینل پر دکھایا گیا، جسے تاجکستان کے صدر نے تاجک خطے میں امن و استحکام کے دفاع کیلئے تیار ہوجائیں کا نام دیا۔انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک اسلامی جمہوریہ افغانستان، خاص طور پر ہماری ملک کی سرحد سے متصل شمالی خطے میں حالات انتہائی پیچیدہ اور غیر یقینی صورت حال کا شکار ہیں۔

تاجک صدر نے بتایا کہ حالات دن بدن بلکہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔انہوں نے مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی کہ ممکنہ خطرات سے نمٹنے کیلئے اعلیٰ سطح پر جنگی تیاریوں اور ریاست کی سرحدوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔امام علی رحمن جو 1994 سے تاجکستان پر حکمرانی کر رہے ہیں، انہوں مذکورہ صورت حال کے حوالے سے اپنے روسی اتحادی صدر ولادمیر پیوٹن سے بھی بات کی۔ادھر کریملن نے ایک جاری بیان میں کہا کہ انہوں نے افغانستان کے حالات پر تبادلہ خیال کیا اور تاجکستان کی جانب سے ابتدائی اقدام کے طور پر فون کال کی گئی۔