پیرس کی سماجی اور سیاسی تبدیلی اہم کیوں؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 25 جولائی 2021 15:00

پیرس کی سماجی اور سیاسی تبدیلی اہم کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2021ء) شہر آباد اور برباد ہوتے رہے ہیں۔ کچھ شہر ایسے بھی ہیں، جو بربادی کے بعد ایسے کھنڈر ہوئے کہ ماضی کا حصہ بن گئے۔ لیکن کچھ شہر ایسے بھی ہیں، جنہوں نے بدلتے ماحول میں خود کو زندہ رکھا۔ ان شہروں کے رہنے والے تو ختم ہوتے رہے لیکن انہوں نے ماضی کی نسلوں کو ان کی تاریخ اور ورثے کو محفوظ رکھا۔

ایسے شہروں کی عمارتیں، گلیاں اور کوچے پرانی یادوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ کام مورخ کا ہے کہ وہ ان کی گہرائی میں جاکر گمشدہ ماضی کو تلاش کرے۔ پیرس بھی ایک ایسا ہی شہر ہے، جس نے سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کو برداشت کیا اور اپنے وجود کو برقرار رکھا۔

بیسٹی کے قلعہ پر حملہ

یہ واقعہ 14جولائی 1789ء کا ہے کہ جب پیرس کے عوام نے بیسٹی کے قلعہ (Bastille Fort) پر حملہ کیا۔

(جاری ہے)

یہ قلعہ اس لیے بدنام تھا کیونکہ یہاں سیاسی قیدیوں کو رکھا جاتا تھا۔ حملے کے نتیجے میں قلعے کے گارڈ مارے گئے اور لوگوں نے جیلر کا سر کاٹ کر نیزے پر رکھ کر شہر میں گھمایا۔

دوسرے دن لوگ پھر ہتھوڑے اور دوسری لوہے کی چیزیں لے کر وہاں پہنچے اور پھر اسے مسمار کر دیا۔ قلعے کے ٹکڑوں کو فرانس کے دوسرے شہروں میں بھی بطور تحفہ بھیجا گیا۔

جب فرانس کے بادشاہ Louise-XVI ورسائی (Versailles) میں یہ خبر پہنچائی گئی تو اس نے کہا کہ کیا یہ بغاوت ہے۔ اس پر اس کے ایک درباری نے جواب دیا، '' یورمیجسٹی یہ بغاوت نہیں انقلاب ہے۔‘‘ اس دن سے پیرس ایک انقلابی شہر میں تبدیل ہو گیا۔

20 جولائی 1789ء کو پیرس کے عوام، جن میں کاریگر، دوکاندار اور عام لوگ بھی شامل تھے، نے بڑ ے مظاہرے کیے۔

یہ مظاہرے ساں کولوٹ کے (Sans Culatte) کے نام سے جانے جاتے ہیں، کیونکہ ان مظاہروں کے دوران لوگ Breeches پہنتے تھے، جو عام پتلونوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ یہ لباس کمر سے لے کر گھٹنوں تک ہوتا ہے، جس میں دونوں ٹانگوں کے لیے الگ الگ کپڑا ہوتا ہے۔یہ مظاہرین ایک مخصوص انداز میں اپنی ٹانگیں کھلی رکھتے تھے۔

ان مظاہرین نے جو بینرز اٹھا رکھے تھے ان پر مختلف نعرے لکھے ہوئے تھے۔

مثلاً ' ہم تم سے تھک چکے ہیں‘، 'موت تمہارا انتظار کر رہی ہے‘، 'تم جہاں بھی ہو خوف اور ڈر سے لرزتے رہو‘ وغیرہ وغیرہ۔ پیرس کے یہ عوام جیکو بن کلب کے ممبر تھے جو ایک انقلابی کلب تھا۔

انقلابی اقدامات

لہٰذا جب 1793ء اور 1794ء میں روبس پیئر (Robespierre) کی راہنمائی میں ان کا سیاسی تسلط ہوا تو اس زمانے میں بے انتہا انقلابی اقدامات اٹھائے گئے۔

لیکن سن سترہ سو چورانوے میں روبس پیئر کے قتل کے بعد Directory کے نام سے نئی حکومت قائم ہوئی تو اس نے Sans Cullate کے خلاف ان کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے فیصلے کیے۔

اس نئی حکومت کی وجہ سے فرانس میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی پھیلی کیونکہ برسر اقتدار افراد نے ایسے لوگوں کو نوازا ، جنہوں نے انقلاب کے لیے قربانیاں دی تھیں۔اس کے باوجود یہ حکومت اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ کئی کامیابیوں سے بھی ہمکنار ہوئی۔

1799ء میں نیپولین نے فوج کی مدد سے حکومت پر قبضہ کر لیا جس کا خاتمہ 1815ء میں واٹرلو کے مقام پر اس کی شکست پر ہوا۔ فرانس میں ایک بار پھر پرانا شاہی خاندان اقدار میں آیا لیکن اب پیرس کے عوام پرانے نظام کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھے۔ ذہنی طور پر وہ انقلابی ہو چکے تھے۔ لہٰذا جولائی 1830ء میں انقلابیوں نے قدیم شاہی خاندان کا خاتمہ کر دیا اور اس کی جگہ نیا بادشاہ Loius Flipp کو بنایا جس نے خود کو سٹیزن کنگ کہلواتا تھا، لیکن جب لوگ اس سے بھی تنگ آگئے تو 1848ء میں پورے یورپ میں انقلاب کی پسر آئی۔

لوئی نیپولین کا دور

پیرس میں بھی انقلاب کے نتیجے میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور اس کی جگہ انتخابات کے ذریعے دوسری ریپبلک کا قیام عمل میں آیا جس میں لوئی نیپولین Louis Nepolean، جو نیپولین بونا پاٹ کا بھتیجا تھا، نے صدر کا انتخاب جیتا مگر اس نے بھی اپنے چچا کی طرح 1891ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔

لوئی کے زمانے میں پیرس کن حالات سے گزرا، شہر میں کیا تبدیلیاں آئیں اور سیاسی، سماجی اور ادبی لحاظ سے اس پر کیا اثرات ہوئے، اس موضوع پر ڈیوڈ ہاروی کی کتاب PARIS, CAPITAL OF MODERNITY ایک اہم دستاویز ہے۔

اگرچہ 1789ء کے انقلاب نے اہم سیاسی اور سماجی اصلاحات کی تھیں۔ لیکن ان کا فائدہ بورژہ طبقے کو ہی ہوا تھا، جس نے سیاسی تسلط کے بعد سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے فائدے اٹھائے، ایشیا اور افریقہ کی تجارت سے منافع کمایا، لیکن اپنے کارخانوں میں موجود مزدوروں کو بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا۔

یہ مزدور چودہ چودہ گھنٹے کام کرنے کے بعد مشکل سے گزارہ کرتے تھے۔

کرائے کے مکانوں میں رہتے تھے جو ایک یا دو کمروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ گندے پانی کی نکاسی اور صفائی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ تنگ و تاریک مکانات میں رہنے کی وجہ سے بیماریاں عام تھیں۔ غذا میں گوشت کا استعمال بہت کم تھا، ان کی عورتیں فیکٹریوں اور گھروں میں کام کرتی تھیں۔ گھروں میں کام کرنے والی خادماؤں کی عزت محفوظ نہیں ہوتی تھی۔ متوسط طبقے کی بہت سی عورتیں طوائف بن کر روزی کماتی تھیں، جبکہ ان کے مقابلے میں بورژوہ طبقہ اپنے کشادہ مکانات اور صاف ستھرے ماحول میں رہتا تھا، ان کی تفریحوں میں تھیٹر، اوپرا اور موسیقی کی محفلیں اور سماجی رابطوں کے لیے سیلون ہوا کرتے تھے۔

ان کی عورتیں نئے نئے فیشن اختیار کرکے اپنی دولت کا اظہار کرتی تھیں۔

ادبی و ثقافتی اثرات

اس ماحول کا اثر اس عہد کے ادیبوں، شاعروں اور آرٹسٹوں اور شاعروں پر ہوا۔ ان میں خاص طور سے اونرے ڈی بلزک نے اپنے ناولوں میں بورژہ طبقے کا تجزیہ کیا، جو بے ڈھنگے انداز میں اپنی دولت کا اظہار کرتا ہے۔ وکٹور ہوگو کا ناول Les Miserables جو سنسر شپ کی وجہ سے برسلز میں چھپا تھا، جب سمگل ہو کر فرانس آیا اور پیرس کے ہر پڑھے لکھے شخص کے ہاتھوں میں پہنچ گیا، تو لوگوں میں ایک نئی سوچ پیدا ہوئی۔

اسی سوچ کی بنیاد پر آرٹسٹوں میں خاص طور سے اونرے دومیئر نے اس عہد کے ہر لمحے کو پینٹ کرکے پوری تاریخ کو بیان کر دیا۔ دوسرا اہم آرٹسٹ گستاف کوبے تھا، جس کی ہمدردیاں مزدوروں کے ساتھ تھیں اور جس نے لوئی نیپولین کا دیا ہوا اعلیٰ اعزاز ٹھکرا دیا تھا۔ پیرس کمیون میں یہ مزدور انقلابیوں کے ساتھ تھا۔

جن مفکرین نے پیرس کی معاشی اور سماجی زندگی پر اثر ڈالا ان میں ساں سیموں بھی ایک اہم نام ہے، جو جدیدیت کا قائل تھے۔

وہ ٹرانسپورٹ کے لیے ریلوے، نہری نظام اور انتظامیہ کے لیے پروفیشنل اور ٹیکنوکریٹ تھے۔ انہیں ابتدائی سوشل ازم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

معروف ماہر ریاضی و فزکس یوزف فوریے زرعی معاشرے کے حامی تھے۔ سوشلسٹ نظریات کے حامل پیئر یوزف پرودآں نجی جائیداد کے خلاف تھےاور Cooperative System کے حامی۔ سوشلسٹ اور انقلابی لوئی آگوسٹ بلانکی اس بات کا حامی تھے کہ ریاست پر قبضہ کرکے معاشرے کو سدھارا جا سکتا ہے۔

انہی نے پرولتاریوں کی حکومت کا نعرہ لگایا تھا۔

لوئی نیپولین نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے دو طریقوں پر عمل کیا۔ ایک تو یہ کہ سیاسی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں لگا دی گئی۔ اخبارات، رسالوں اور کتابیں سنسر ہونے لگیں۔ اس وجہ سے بہت سے دانش مند فرانس چھوڑ کر جلاوطن ہو گئے۔ عوامی موسیقار جو سڑکوں اور گلیوں میں مقبول عام گیت گاتے تھے، چونکہ ان میں حکومت کا مذاق اڑایا جاتا تھا اس لیے ان پر بھی پابندیاں لگا دی گئیں۔

پیرس کی تعمیر نو کے سیاسی مقاصد

نپولین اور حکمران طبقے کو عوام سے خطرہ تھا، کیونکہ 1848ء کے انقلاب نے عوام پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا اور ان عوامی مظاہروں کو روکنا یا انہیں منتشر کرنا فوج کے لیے ناممکن تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ تنگ گلی کوچوں میں پناہ لے لیتے تھے اور انقلابی تجربات کی بناء پر سڑکوں اور گلیوں میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتے تھے، تاکہ فوج نقل و حرکت نہ کر سکے۔

لہٰذا نیپولین کی حکومت کے لیے یہ لازمی ہو گیا تھا کہ وہ اس صورتحال سے نمٹنے کی خاطر شہر کی تعمیر نو کرے۔

اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک کام مزید کیا گیا کہ شہر سے تمام فیکٹریوں کو مضافات میں منتقل کر دیا گیا تاکہ مزدور شہر سے دور ہو جائیں۔ اس کے بعد شہر کے پرانے مکانات کو مسمار کرایا گیا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے دانشوروں اور آرٹسٹوں کو اس عمل سے سخت صدمہ پہنچا کہ ان کے آبائی گھروں کو جن میں ان کا زیادہ وقت گزرا تھا وہ باقی نہ رہے۔

ان گلی کوچوں میں جہاں ان کی زندگی گزری تھی وہ بھی ختم ہو گئے اور صرف ان کی یادیں باقی رہ گئی۔ اس عمل نے پیرس کو ماضی کی شناخت سے محروم کر دیا۔

پرانے شہر کو مسمار کرنے اور نچلے طبقے کے لوگوں کو محلوں سے دور آباد کرنے کے بعد ایک نئے شہر کی تعمیر شروع ہوئی۔ اس میں چوڑی اورسیدھی سڑکیں بنائی گئی تاکہ سکیورٹی فورسز مظاہرین پر قابو پا سکیں۔

شہر کے مرکزی حصے کو شاندار ایمپریل کیپٹل بنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ نئی یادگاریں اور عمارتیں شہر کے وسط میں تیار کی گئیں۔

اسی دوران باغات کی بنیاد رکھی گئی، سڑکوں کے دونوں جانب درخت لگائے گئے اور شہر کو کلچرل سنٹر بنانے کے لیے اوپرا تھیٹر، موسیقی کے لیے کنسرٹ ہال اور صنعتی نمائش کے لیے بڑے بڑے ہال تعمیر کرائے گئے۔ لوگوں کی سماجی سرگرمیوں کے لیے کافی ہاؤس کھولے گئے، جہاں دانشور اور آرٹسٹ باہم ملتے تھے۔

شہر کی بڑی شاہراہوں پر فوجی پریڈز ہوا کرتی تھی تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر متاثر ہوں اور ان میں قومی جذبہ ابھرے۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کی اکثریت شہر کے مرکز سے دور ہو گئی اور ان کے مظاہروں کے لیے بھی مناسب جگہ نہ رہی۔ فوجی نقل و حرکت اور پریڈز کے لیے ان کو تماش بین بنا دیا، تاکہ ان کے انقلابی جذبات کو دھیما کر دیا جائے۔ اس میں ریاست کے میڈیا نے بھی حصہ لیا اور سیاسی پابندیوں کی وجہ سے لوگوں کو روکے رکھا۔

جرمنوں کا حملہ اور نئی سیاسی تبدیلی

لیکن تاریخ کا اپنا عمل ہوتا ہے اور حادثات تاریخ کے رخ کو موڑ دیتے ہیں یہی کچھ 1870ء میں فرانس کے ساتھ ہوا جب جرمنی نے فرانس پر حملہ کرکے سیدان کی جنگ میں نیپولین کو شکست دی تو اس کی حکومت اور بادشاہت کا خاتمہ ہوا۔ اس موقع پر جب فرانس میں حکومت شکست کھا چکی تھی، پیرس کے انقلابیوں نے شہر پر قبضہ کرکے کمیون کے ذریعے اس پر اپنا سیاسی تسلط قائم کر لیا۔

پیرس کمیون کے راہنما اور اس کے حامی سوشلسٹ تھے اور آزادی اور مساوات کی بنیاد پر حکومت کی تشکیل کرنا چاہتے تھے، لیکن کمیون (Commune) کا یہ انقلابی منصوبہ نہ تو فرانس کے بورژہ طبقے کو قبول تھا اور نہ ہی جرمن فاتحین کو۔ چنانچہ فرانسیسی اور جرمن فوجوں نے مل کر کمیون کو ختم کرنے کے لیے پیرس پر حملہ کیا۔

اس بار بھی انقلابی راہنمائوں اور عوام نے سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کیں اور فوج سے مقابلے کے لیے تیاریاں بھی کیں۔

اس میں انہیں فرانس کے انقلابی دانشوروں کی حمایت بھی حاصل تھی، لیکن وہ منظم فوج کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ جس نے گولہ باری کے ذریعے رکاوٹوں کو بھی توڑا اور لوگوں کا قتل عام بھی کیا۔اس دوران بیس سے پچیس ہزار تک لوگ قتل ہوئے جبکہ 40,000 ہزار کو قیدی بنایا گیا۔

قیدیوں کو اذیتیں دی گئیں اور پھر گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس خونریزی کے نتیجے میں لاشیں سڑکوں اور گلیوں میں پڑی رہیں اور پھر ان لاشوں کو اکٹھا کرکے پیرس کے ایک باغ میں اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا۔

پیرس کمیون کا یہ خاتمہ اس لحاظ سے دردناک تھا کہ اس کے ذریعے سوسائٹی کو جو تبدیل کرنے کی کوشش کی اس میں یہ ناکام رہا۔

تیسری ریپبلک کا قیام

فرانس میں تیسری ریپبلک کا قیام عمل میں آیا اور بورژوہ طبقہ ایک بار پھر اقتدار کا مالک ہوا، لیکن اس کی تاریخ میں اس کی انقلابی تاریخ جو 1789ء سے شروع ہوئی تھی اور جو 1848,1830ء اور 1870ء میں Paris Commune تک انقلابی جدوجہد کا مرکز رہی اس کی یادیں تاریخ میں باقی رہیں۔

1968ء میں پیرس کے طالب علموں نے ایک بڑا انقلابی مظاہرہ کیا جسے دوسرا فرانسیسی انقلاب کہا گیا یہ بھی اگرچہ ناکام ہوا مگر حال ہی میں 2002ء میں فرانس کے مزدوروں نے ایک بار پھر پیلی جیکٹیں پہن کر اپنے مطالبات کے حق کے لیے انقلابی جذبے کا سہارا لیا۔ فرانسیسی انقلابی سرگرمیوں نے نہ صرف یورپ بلکہ ایشیا اور افریقہ کے عوام کو بھی متاثر کیا ہے جو اپنی آزادی اور مساوات کے لیے انقلاب کا سہارا لیتے ہیں۔

پیرس کو کیوں نہیں جلایا گیا

اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح سے ایک شہر اور اس کے دانشور اور مفکرین اپنے خیالات و افکار کے ذریعے دنیا کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ پیرس کا شہر ایک علامت بن گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران پیرس پر جرمنوں کا قبضہ ہو گیا اور جب جرمنوں کو شکست کے آثار نظر آنے لگے تو ہٹلر نے پیرس مقیم جرمن جنرل کو حکم دیا کہ وہ شہر کو آگ لگا کر تباہ و برباد کر دے۔

تاہم جرمن جنرل کو پیرس شہر کی تہذیبی اور فکری عظمت کا احساس تھا، اس لیے ہٹلر کے بار بار اصرار پر بھی اس نے اس شہر کو راکھ میں نہیں بدلا اور پیرس شہر محفوظ رہا۔ مشہور فرانسیسی ادیب و سفر نگار دومنیک لاپیئر نے اپنی کتاب "Is Paris Burning" میں اس حوالے سے پوری تفصیل لکھی ہے۔

یہی عمل اسپارٹا کی فوجوں نے ایتھنز کے ساتھ بھی کیا تھا کہ پہلی پوزیشن جنگ میں ایتھنز شہر کی تہذیبی خدمات کے پیش نظر اسے برباد نہیں کیا بلکہ محفوظ رکھا۔ لہٰذا پیرس شہر کی اپنی تاریخ اہم واقعات اور حادثات سے بھری ہوئی ہے۔