ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو افغان سرحد پر موجودہیں، اقوام متحدہ

طالبان اور القاعدہ میں قریبی تعلقات اب بھی برقرار ہیں اور ان میں اختلافات کی کوئی علامت دکھائی نہیں دی،رپورٹ

منگل 27 جولائی 2021 17:33

نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جولائی2021ء) اقوام متحدہ نے کہاہے کہ ٹی ٹی پی کے ہزاروں جنگجو افغان سرحد پر موجوہیں،پاکستان افغان سرحد پر موجود یہ عسکریت پسند نہ صرف پاکستان بلکہ چینی حکومت کے بھی خلاف ہیں۔اختلافات کے باوجود ان جنگجوئوں کے افغان طالبان سے بھی ماضی جیسے روابط برقرار ہیں۔اختلافات کے باوجود تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان کے مابین پہلے جیسے ہی تعلقات قائم ہیں۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں پاک افغان سرحد کے قریب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے ہزاروں تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کی موجودگی کی تصدیق کی اور کہا کہ بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کے باوجود طالبان کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات حسب سابق برقرار ہیں۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ افغانستان میں پاکستانی سرحد کے قریب کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے تقریبا چھ ہزار تربیت یافتہ جنگجو موجود ہیں۔

اقوام متحدہ کی 'تجزیاتی معاونت اور پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کے سربراہ ٹی ایس تریمورتی نے پیش کردہ اس رپورٹ میں افغانستان کی سرحد کے قریب بیجنگ مخالف سینکڑوں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی بھی تصدیق کی ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ حالانکہ ٹی ٹی پی پر عائد پابندیوں کی وجہ سے طالبان اور اس گروپ کے مابین جھڑپیں ہو چکی ہیں اور دونوں کے درمیان عدم اعتماد میں اضافہ بھی ہوا ہے تاہم ان سب کے باوجود دونوں میں تعلقات پہلے جیسے ہی قائم ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، دسمبر 2019 اور اگست 2020 کے عرصے میں افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بعض گروپوں کے درمیان دوبارہ اتحاد ہوا۔ اس میں شہر یار محسود گروپ، جماعت الاحرار، امجد فاروقی گروپ اور عثمان سیف اللہ گروپ (جو پہلے لشکر جھنگوی کے نام سے مشہور تھا)شامل تھے جبکہ القاعدہ نے مبینہ طورپر ان گروپوں کے مابین ثالثی کا کردار ادا کیا۔رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی پاکستان کی سرحد کے قریب صوبہ ننگر ہار میں موجود ہے۔

اقو ام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الگ الگ گروپوں کی ٹی ٹی پی میں شمولیت سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ نور ولی محسود اس گروپ کی قیادت کر رہے ہیں اور ایک محتاط اندازے کے مطابق مسلح جنگجوں کی تعداد اس وقت ڈھائی سے چھ ہزار کے درمیان ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس گروپ کے مقاصد نہ صرف پاکستان مخالف ہیں بلکہ یہ افغانستان کے اندر افغان فورسز کے خلاف افغان طالبان کی مدد بھی کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ طالبان اور القاعدہ میں قریبی تعلقات اب بھی برقرار ہیں اور ان میں اختلافات کی کوئی علامت دکھائی نہیں دی۔ رپورٹ کے مطابق دونو ں کے درمیان تعلقات کم ہونے کے بجائے مزید گہرے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ باہمی شادیاں، مشترکہ جدوجہد اور اب دوسری نسل کے درمیان تعلقات میں اضافہ ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ حالانکہ دوحہ معاہدے سے طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات میں دوری ہونے کے توقعات پیدا ہوئی تھیں تاہم شواہد اور واقعات سے اس کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

اقو ام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ اس وقت افغانستان کے پندرہ صوبوں بالخصوص مشرقی، جنوبی اور جنوب مشرقی علاقوں میں موجود ہے۔دوسری جانب طالبان نے اقوام متحدہ کے اس رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں اس وقت کوئی بھی غیر ملکی دہشت گرد جنگجو موجود نہیں ہے۔ طالبان نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر اس حوالے سے جھوٹی اطلاعات فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔اس رپورٹ میں چین کے ساتھ افغانستان کی سرحد کے قریب بیجنگ مخالف سینکڑوں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔