ڈائو یونیورسٹی نے پہلے تینوں PSIMRA تحقیقی ایوارڈ جیت لیے

ڈائو یونیورسٹی کے ڈاکٹرزنے کورونا کے علاج اور بچائو میں وٹامن ڈی کے کردار، ٹی بی اور کورونا کے مریضوں پر کی گئی تحقیق پر پہلے تینوں ایوارڈ حاصل کیے

اتوار 1 اگست 2021 19:25

�راچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 اگست2021ء) ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی کے اوجھا اسپتال سے وابستہ نوجوان ڈاکٹروں نے پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کی جانب سے منعقد کیے جانے والے پہلے تین PSIMRA ایوارڈ جیت لیے ہیں، ڈائو یونیورسٹی کے ڈاکٹروں نے کورونا کے علاج اور بچائو میں وٹامن ڈی کے کردار، ٹی بی اور آئی سی یو میں داخل کورونا کے مریضوں پر کی گئی تحقیق پر پہلے تینوں ایوارڈ حاصل کیے۔

پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن ریسرچ ایوارڈ کی تقریب مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی جس میں ڈا یونیورسٹی کے ڈاکٹر محمد صہیب اصغر کو پہلا، ڈاکٹر صدف احمد کو دوسرا اور ڈاکٹر رابیل یاسین کو تیسرا PSIMRA ایوارڈ سے نوازا گیا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے تینوں ڈاکٹروں کو غیرمعمولی تحقیق کرنے پربالترتیب 2 لاکھ ایک لاکھ اور 75 ہزار روپے کے کیش انعام سے بھی نوازا گیا۔

(جاری ہے)

یا پی سمرا ایوارڈز کا اجرا پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن نے ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ اور مقامی دواساز کمپنی کے فارم ایوو کے اشتراک سے کیا ہے، ایوارڈ کے لیے ملک بھر کے 26 ڈاکٹروں نے اپنے تحقیقی مقالے جمع کرائے تھے جس میں سے 10 شارٹ لسٹ کیے گئے اور اس کے بعد پاکستان بھر کے نامور ڈاکٹروں پر مشتمل جیوری نے ڈا یونیورسٹی سے وابستہ تین نوجوان تحقیق کاروں کے ریسرچ پیپرز کو بہترین قرار دیتے ہوئے ایوارڈز کا حقدار قرار دیا۔

پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن ریسرچ ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ انہیں انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اب پاکستان کے نوجوان ڈاکٹر اسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ تحقیق میں بھی مصروف ہیں، پاکستان کے نوجوان ڈاکٹروں اور طلبہ میں بڑی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں، وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کے ماہرین کی تیار کردہ ادویات اور طریقہ علاج پوری دنیا میں اپنائے جائیں گے۔

ڈا یونیورسٹی کے ڈاکٹروں کو پہلے تینوں ایوارڈز اور انعام حاصل کرنے پر مبارکباد دیتے ہوئے پروفیسر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ ان ایوارڈز کے اجرا کے بعد پاکستان کے تمام اسپتالوں اور یونیورسٹیوں سے وابستہ ڈاکٹر میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوگا اور ایسی تحقیقات سامنے آئیں گی جس کے نتیجے میں انسانیت کی فلاح و بہبود ممکن ہو سکے گی۔پاکستان کے نامور ماہر امراض ذیابطیس اور ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں مختلف بیماریوں پر تحقیق کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے، ہیلتھ ریسرچ ایڈوائزری بورڈ اور فارم ایوو ریسرچ فورم نے اب تک ملک بھر میں تحقیق اور ریسرچ کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے ہیں جن میں پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن کے ساتھ مل کر ایوارڈز کا اجرا اور نوجوان تحقیق کاروں کو کیش انعامات دینے کا سلسلہ بھی شامل ہے۔

دوسری جانب ڈا یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے ڈا یونیورسٹی کے نوجوان ڈاکٹروں کی جانب سے پاکستان سوسائٹی آف انٹرنل میڈیسن ریسرچ حاصل کرنے پر ان کو مبارکباد دی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ڈا یونیورسٹی میں ہونے والی ریسرچ کو بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا جا رہا ہے اور عالمی ادارہ صحت کے ساتھ ساتھ دیگر بین الاقوامی ادارے ڈا یونیورسٹی کی ریسرچ سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے ان سے رابطے میں ہیں۔

مزدور رہنما لیا قت علی ساہی سیکریٹری جنرل ڈیموکریٹک ورکز فیڈریشن نے کراچی میں لگائے گئے جوزوی لاک ڈان پر وزیر اعلی سندھ سے مطالبہ کیا کہ کووڈپالیسی پر نظر ثانی کی جائے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آپ نے عوام کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے مجبوری میں کراچی میں جوزوی لاک ڈان لگایا ہے لیکن اس میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے جسطرح سندھ حکومت کے ترجمان کی طرف سے کہا گیا ہے جس انڈسٹری نے سو فیصد اپنے ملازمین کی ویکسینیشن مکمل کرلی ہے انہیں انڈسٹری کو کھلے رکھنے کا حق حاصل ہوگا اس فیصلے کی روشنی میں کراچی کے چھوٹے کارورباری افراد کو یہ حق نہ دینا سراسر زیادتی ہے بلکہ سندھ حکومت کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے ، طاقتور طبقے کو تو یہ حق حاصل ہے کہ اگر اس نے ویکسینیشن کا عمل مکمل کر لیا ہے تو ایس او پی پر عمل درآمد کرتے ہوئے انڈسٹری کھلی رکھیں لیکن ایک چھوٹے کاروباری شخص کو اسی پالیسی کے تحت یہ حق حاصل نہیں ہیجس پر ملک کا دستور تفریق یعنی کہ Discrimination کی بنیاد پر مرتب کی جانے والی پالیسیوں کوآئین کی خلاف ورزی تصور قرار دیتا ہیلہذا ہم کمزور طبقوں کی طرف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جنہوں نے اپنے ادارے یا یونٹ میں ملازمت کرنے والے ملازمین کی ویکسینیشن مکمل کر لی ہے انہیں بھی اپنے کاروبار کو کھلے رکھنے کی اجازت دی جائے تاکہ جن ورکرز کا دارومدار ہی روزانہ کی دیہاڑی پر ہے ان کے چولہے ٹھنڈے نہ ہوسکیں ۔

انہوں نے وزیر اعلی سندھ سے مطالبہ کیا کہ قانون نافذ کرنے ولے اداروں کو بھی پابند کیا جائے کہ دوران چیکنگ عام لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے اکثر وبیشتر دیکھنے میں آیا ہے کہ ایس او پی پر عمل درآمد کے سلسلے میں عام لوگوں کی قانون نافذ کرنے والے ادارے عزت نفس کو مجروح کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جو کہ قابل افسوس عمل ہے۔انہوں نے کہا کہ ویکیسینیشن کیلئے بھی کراچی کے تمام پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے ہسپتالوں کو پابند کیا جائے کہ چوبیس گھنٹے ویکیسینیشن کا اہتمام کریں تاکہ ویکیسینیشن کرانے والوں کو کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اگر ملک میں ایک وبا کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے تو پرائیویٹ ہسپتالوں کو اس میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے اس طرح بہت اچھے انداز میں ویکسینیشن کا عمل مکمل ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت اپنا سیاسی اسکور بنانے سے گریز کریں لاک ڈان اور جوزوی لاک ڈان سے بھی متوسط اور محنت کش طبقے کیمسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس کیحل کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کریں پولورائیزیشن کی سیاست نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی گورننس اس قدر خراب ہے کہ ایک عام شخص کا بد ترین استحصال ملک کی بئوروکریسی کر رہی ہے لیکن منتخب نمائندے ان کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں جو کہ ریاست کو ناکامی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے اس پر تمام حکومتیں اپنی انرجی لگائیں تاکہ ریاست کے اداروں میں گورننس کو بہتر کرکے عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو آئین کی روشنی میں یقینی بنایا جاسکے۔

انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ اس وقت ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ ورکرز کو کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ کے ذریعے اداروں میں ملازمتوں پر رکھا ہوا ہے جنہیں کم سے کم ویجز بھی ادا نہیں کئے جارہے ، انجمن سازی سے طاقت کے بل بوتے پر انہیں محروم کیا جارہا ہے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک بھر کے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں کلریکل اور نان کلریکل کیڈرز میں مستقل بھرتیاں کرکے اداروں میں انصاف فراہم کیا جائے ۔

وفاقی اور صوبائی سطح پر محنت وزارت اپنے کئے ہوئے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں بری طرح ناکام ہے جس کی وجہ سے محنت کش طبقے کے ساتھ ہر سطح پر ناانصافیاں کی جارہی ہیں بلکہ بد قسمتی سے منتخب نمائندوں نے محنت کشوں کو بیوروکریسی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جو کہ بد ترین گورننس ہے۔