دنیا بھر میں بہت سی آفات ہماری سوچ سے کہیں زیادہ باہم مربوط

DW ڈی ڈبلیو اتوار 12 ستمبر 2021 11:40

دنیا بھر میں بہت سی آفات ہماری سوچ سے کہیں زیادہ باہم مربوط

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 ستمبر 2021ء) امریکی ریاست ٹیکساس میں شدید سردی کی لہر، مشرقی افریقہ میں ٹدی دَل کی یلغار، چین میں ایک مچھلی کی قسم جو ڈائناسورز سے تو بچ گئی لیکن انسانوں سے محفوظ نہ رہ سکی اور معدوم ہو گئی۔ یہ سب گزشتہ برس کی چند آفات ہیں جنہیں غیرمعمولی قرار دیا گیا۔ بظاہر بیان کی گئی آفات جن علاقوں میں نازل ہوئی تھیں، وہ ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں اور ان کے بیچ سرحدوں کے علاوہ سمندر بھی حائل ہیں۔

لیکن ایک بات مشترک ہے۔

طوفانوں، سیلابوں، جنگلاتی آگ اور خشک سالی سے لاکھوں انسان بے گھر

اسی مشترک بات کا سراغ اقوام متحدہ یونیورسٹی کے محققین نے لگایا ہے۔ محققین کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں پیدا ہونے والی شدید ترین آفتوں نے ایک دوسرے کی شدت کو بڑھایا اور بعض دفعہ انہیں انسانی سرگرمیوں نے بھی تقویت فراہم کی۔

(جاری ہے)

ایک دوسرے سے جڑے بحران

اقوام متحدہ کے تجزیہ کاروں کے مطابق ان بحرانوں میں تین وجوہات نمایاں دکھائی دیتی ہیں۔

ان میں ایک زمین کے اندر سے حاصل کیا جانے والا ایندھن (فوسل فیول)، دوسری خطرات سے نمٹنے کی کمزور انتظامی صلاحیت اور تیسری ماحولیاتی معاملات کے لیے فیصلہ سازی کو کم وقعت دینا۔

اس تناظر میں کئی آفات آپس میں مربوط ہیں۔ جیسا کہ ویتنام میں صرف دو ماہ میں نو طوفانوں کی آمد، جن میں موسلادھار بارشیں اور سیلابوں نے سارے ملک میں قہر برپا کر دیا۔

بنگلہ دیش میں کورونا وبا کے دوران ٹکرانے والا سمندری طوفان جو کہ کلائمیٹ چینج کی وجہ تھا۔

کلائمیٹ چینج اب موضوع کے طور پر ویڈیو گیمز میں بھی

اقوام متحدہ کے سینیئر سائنسدان جیک او کونر، جو کہ اس تحقیقی رپورٹ کے محققین کی ٹیم کے سربراہ ہیں، کا کہنا ہے کہ ان آفتوں نے ایک دوسری کو سہارا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان یا وبا کو سامنا کرنے کے لیے انسانی ذہن میں کوئی فوری ریسپونس نہیں ہوتا لیکن اب نئی صورت حال میں ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔

مسلسل شدید ہوتا موسم

اقوام متحدہ کی تحقیقی رپورٹ ایسے وقت میں آئی ہے جب عالمی موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن (WMO) کی جاری کردہ موسمیاتی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ گزشتہ پچاس برسوں میں جس قدر طوفان یا آفتیں آئی ہیں وہ اوسط اعتبار سے ایک دن ایک طوفان یا آفت بنتی ہے۔ ان میں سمندری طوفانوں سے لے کر قحط بھی شامل ہیں۔

روزانہ کی اوسط دیکھی جائے تو ان بحرانوں نے ہر روز ایک سو پندرہ انسان ہلاک اور دو سو دو ملین یورو کا مالی نقصان کیا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ سمندری طوفانوں میں اضافے کے باوجود انسانی جانوں کے ضیاع میں کمی ہوئی ہے اور اس کی وجہ موسم کی صورت حال پر انسانی نگاہ ہے۔ بروقت موسمیاتی پشین گوئی انسانوں کو سمندری طوفانوں کا تر نوالہ نہیں بننے دی رہی اور ان کی قبل از وقت محفوظ مقام پر منتقلی کر دی جاتی ہے۔

بظاہر زندگیاں ضرور بچائی گئیں لیکن بے گھری بڑھ گئی ہے۔ سمندری طوفانوں میں اضافے کی بڑی وجہ فوسل فیول کا جلانا ہے، جو زمین کے بالائی ماحول کو گرم تر کرتا جا رہا ہے۔

یہ ابھی پوری طرح واضح نہیں کہ زمین کے ماحول کے گرم ہونے سے آفتیں ایک دوسرے سے کیسے جڑی ہوئی ہیں۔

ٹیکساس کا طوفان ’ویک اپ کال‘ تھی، وائٹ ہاؤس کی مشیر

ماحولیاتی نظام اور آب و ہوا کو درپیش بحران

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ماحولیاتی نظام کو کلائمیٹ چینج کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔

آسٹریلیا کی مونگے کی چٹانوں میں گراوٹ بھی ماحولیاتی نظام سے جڑی ہے۔ بتایا گیا اگر گلوبل وارمنگ میں ڈیڑھ درجے کا اضافہ ہو جاتا ہے تو مونگے کی چٹانیں ستر سے نوے فیصد تک کم ہو جائیں گی۔ جیک او کونر کے مطابق مونگے کی چٹانوں کو آلودگی اور مچھلیاں پکڑنے میں اضافے کا بھی سامنا ہے۔

چین کے بڑے دریا یانگ سی کی پیڈل فِش گزشتہ برس پوری طرح نابود ہو گئی ہے کیونکہ اس کو انسانوں نے غیر معمولی طور پر زیادہ پکڑ کر کھا لیا ہے۔

اس کے نابود ہونے کی دوسری وجوہات میں دریا میں پائی جانے والی آلودگی اور اوپر کی جانب بند باندھنے کا سلسلہ ہے۔ اگر انسانی سرگرمیاں یو نہی منفی سمت چلتی رہیں تو سارے نظام کا منہدم ہو جانا یقینی ہے۔

فطرت سے دوستی ضروری: اقوام متحدہ کا منصوبہ

ایمیزون کے بارانی جنگلات کو کٹائی کے بحران کا سامنا ہے کیونکہ انہیں کاٹنے سے زمین صاف ہوتی ہے اور ان پر اگنے والی گھاس ایسے مال مویشی کی افزائش کے کام آتے ہیں جن کو انجام کار کاٹ کر عالمی آبادی کا بڑا حصہ اپنی لذتِ کام و دہن کی تکمیل کرتا ہے۔ ایک اور ریسرچ کے مطابق ایمیزون اور دنیا کے دوسرے کے جنگلوں کی کٹائی سے گلوبل وارمنگ تیز تر ہو جائے گی۔

اجیت نرنجن (ع ح/ع ت)