بی این پی کی مرکزی کمیٹی کے رکن میر ہمایوں عزیز کرد کا پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل کے نام خط

پارٹی کی سینٹرل کمیٹی اوراداروں سے مشاورت نہ کرکے پارٹی فیصلوں سے تاثرملا کہ تمام معاملات میں فیصلے فرد واحد کے ہوتے ہیں ،سوال

ہفتہ 20 نومبر 2021 23:58

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 نومبر2021ء) بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن وسابق وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کے نام لکھے اپنے ایک خط میں سوال کیا ہے کہ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی اوراداروں سے مشاورت نہ کرکے پارٹی فیصلوں سے تاثرملا ہے کہ تمام معاملات میں فیصلے فرد واحد کے ہوتے ہیں2018کے سینیٹ الیکشن میں پارٹی نے مجھے امیدوار تو نامزد کیا مگر ووٹ حکومتی امیدوار کو دیئے گئے ،9افراد کے قتل کی تحقیقات کیلئے کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ پر پارٹی نے کیوں معنی خیز خاموشی اختیار کی نصیر آباد میں اراضی پر قبضے کے مسئلے پر بھر پور آواز اٹھانے کی یقین دہانی کے بعد لاتعلقی کا اظہار کیوں کیا گیا پارٹی نے بلوچ قومی حقوق کی سیاست چھوڑ کر پی ایس ڈی پی کی سیاست کو کیوں ترجیح دی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں پارٹی نے اپوزیشن کی حمایت تو کی مگر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر میں سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی میٹھائی کھاتے ہوئے نظر آئے ،پی ڈی ایم کا حصہ بننے سے قبل پارٹی کی سینٹرل کمیٹی میں مشاورت کیوں نہیں کی گئی سینیٹ الیکشن میں ساجد ترین پہلی ترجیح کے باوجود کیسے ناکام ہوئے خط میں کہاگیاہے کہ میرے بہت سے تحفظات اور سوالات ہیں تاہم میں سمجھتا ہوں کہ ان کا اظہار کرنے سے تلخیوں میں مزید اضافہ ہوگابی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کوازالہ تحفظات کے عنوان سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں کیا ہے۔

(جاری ہے)

میں اپنے ساتھیوں سمیت وفاقی سیاسی جماعتوں کے اہم عہدوں کو چھوڑ کر ایک ایسے وقت میں پارٹی میں شامل ہوا بقول آپ کے اس وقت صوبے میں بی این پی کی سیاست خوف سیاسی عمل جمود کا شکار تھی میں اور میرے ساتھی اس لئے پارٹی میں شامل ہوئے تاکہ اپنی سیاسی طاقت کو بلوچستان کے لوگوں کیلئے بی این پی کے پلیٹ فارم سے بروئے کار لاتے ہوئے صوبے کے بدحال ،مفلوک الحال عوام کی نمائندگی کریں 2018کے سینیٹ انتخابات میں پارٹی نے مجھے اپنا امیدوار نامزد کرکے ٹکٹ جاری کیااس وقت بلوچستان اسمبلی میں ہمارے ارکان اسمبلی کی تعداد دو تھی مگر کچھ عرصہ قبل پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا انکشاف کیا کہ سینیٹ الیکشن میں مجھے ووٹ دینے کے بجائے حکومتی امیدوار کہدہ بابر کو ووٹ دیا گیا جس کی وضاحت چاہتاہوںمجھے بحیثیت پارٹی امید وار ووٹ دینے کی بجائے سرکاری امید وار کو ووٹ دینے کی کیا وجہ تھی2 سال قبل رمضان المبارک کے مہینے میں بلوچستان کے ضلع مستونگ میں9 افراد سیکورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے جاں بحق ہوئے تھے جن میں کچھ کو میں ذاتی طور پر جانتاتھا جنہیں لاپتہ کیا گیا تھا اس حوالے سے ووڈھ میں ہونے والے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں بحیثیت پارٹی سربراہ سردار اختر جان مینگل کو تحریری درخواست دی کہ اس کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیئے جانے کا مطالبہ کریں تاکہ نہ صرف حقائق سامنے آئیں بلکہ بلوچستان کے لوگوں کو یہ احساس نہ ہو کہ وہ تنہاہیں مگر پارٹی نے اس معاملہ پر معنی خیز خاموشی اختیار کی۔

اپنے خط میں انہوں نے سردار اختر مینگل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں ضلعی انتظامیہ اور مسلح افراد کے ذریعے وہاں کے علاقائی بزگر اور دہقانوں کی 30 ہزار ایکٹر اراضی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اس وقت آپ بیرون ملک تھے میں نے آپ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے صورتحال سے آگاہ کیا اور آپ نے یقین دہانی کرائی کہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے اس مسئلہ کو بھر پور انداز میں اٹھایا جائیگا۔

آپ نے یہ بھی کہا کہ نیپ کے دور میں بھی یہی روش اپنائی گئی تھی اور آپ کے ہی مشورے سے میں نے اور میرے ساتھیوں نے باقاعدہ جدوجہد کا آغاز کیا افسوس کہ پارٹی نے اس مسئلہ پر سراسر لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے مظاہرے یا جلسوں میں شرکت تو اپنی جگہ صوبائی وقومی اسمبلی سینیٹ میں کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی میں نے ذاتی حیثیت سے اس جدوجہد کو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ حصہ ڈالتے ہوئے نہ صرف علاقائی بزگر اور دہکانوں کی اس راضی کو واگزار کرایا بلکہ ایک بڑا احتجاجی جلسہ بھی منعقد کیابدقسمتی سے گزشتہ تین سالوں سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ پارٹی نے بلوچ قومی حقوق کی سیاست کو ترجیح دینے کی بجائے پی ایس ڈی پی کی سیاست کو ترجیح دی ہے ایک سیاسی کارکن کیلئے باعث افسوس اور باعث تشویش ہے ۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں پارٹی نے اپوزیشن اتحاد کی حمایت کا تو اعلان کیا مگر ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ پارٹی کے اس وقت کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے عدم اعتماد کی تحریک میں کس کو ووٹ دیاتین ماہ قبل لکھے گئے خط کا جواب تاحال نہیں دیا گیا۔