بھارت‘ حراستی اموات میں مسلسل اضافہ‘دودہائیوں میں 1888افرادکی اموات

2020میں پولیس حراست میں 76افراد کی موت ہوئی‘ ان میں 15حراستی اموات مودی کی آبائی ریاست گجرات میں ہوئیں حراستی اموات کے حالات اس سے کہیں زیادہ بدتر ہیں جتنے سرکاری اعدادو شمارمیں بتائے گئے‘نیشنل کمپین اگینسٹ ٹارچرکی رپورٹ

اتوار 28 نومبر 2021 11:20

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 نومبر2021ء) ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ بھارت میں حراستی قوانین کی صریح خلاف ورزی عام بات ہے۔ بیشتر پولیس افسران قیدیوں پر تشدد کو جائز سمجھتے ہیں۔ دوسری طرف حراستی اموات میں مسلسل اضافے سے عام شہری اور قانون داں دونوں ہی فکر مند ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارت میں پولیس حراست میں 1888 افراد کی اموات ہوگئیں۔

ان اموات کے لیے پولیس اہلکاروں کے خلاف 893 کیسز درج کیے گئے لیکن صرف 358 پولیس افسران اور دیگر پولیس اہلکاروں کو باضابطہ ملزم قرار دیا گیا۔سرکاری ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ ان کیسز میں صرف 26 پولیس اہلکاروں کو قصوروارٹھہرایا گیا۔سرکاری اعدادو شمار کے مطابق سن 2020میں پولیس حراست میں 76افراد کی موت ہوگئی۔

(جاری ہے)

ان میں سب سے زیادہ 15حراستی اموات وزیر اعظم مودی کی آبائی ریاست گجرات میں ہوئیں۔

بی جے پی کی حکومت والی اترپردیش دوسرے نمبر پر رہی۔ گزشتہ برس حراستی اموات کے لیے ایک بھی پولیس افسر یا اہلکار پر عائد الزامات ثابت نہیں ہوسکے۔حراستی اموات کے خلاف مہم چلانے والی تنظیم ’’نیشنل کمپین اگینسٹ ٹارچر(این سی اے ٹی)‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2019 میں ہر روز اوسطاً کم ازکم پانچ افراد کی حراست کے دوران اموات ہوئیں۔ این سی اے ٹی کے مطابق حراستی اموات کے حالات اس سے کہیں زیادہ بدتر ہیں جتنے سرکاری اعدادو شمارمیں بتائے گئے ہیں۔

این سی اے ٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بھارت میں جرائم کا سرکاری ریکارڈ رکھنے والا ادارہ گزشتہ 20 برس میں حراستی اموات کی جتنی تعداد بتاتا ہے اتنی تو صرف سن 2019 میں ہوئیں۔بھارت میں ماضی قریب میں حراستی اموات کے درجنوں ہولناک واقعات پیش آچکے ہیں۔ لیکن اترپردیش کے ایک تھانے میں الطاف نامی نوجوان کی حراستی موت نے گزشتہ ماہ ملک میں ایک طوفان برپا کردیا تھا۔

حراست میں اموات کے ایسے متعدد واقعات سامنے آچکے ہیں جس نے پورے بھارت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ گزشتہ برس سات جون کو 58 سالہ جے راج اور ان کے 38 سالہ بیٹے بینیکس کو تامل ناڈو میں اپنی دکان مقررہ وقت گزرنے کے بعد بھی کھلا رکھ کر کووڈ لاک ڈاؤن کے ضابطوں کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ دو روز بعد پولیس کی مبینہ بربریت کی وجہ سے ان دونوں کی موت ہوگئی۔

ان کی موت پر حراستی اموات کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضی اورقصور وار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر ملک بھر میں مظاہرے ہوئے۔رواں برس اگست میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنّا نے تھانوں میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور اموات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، تھانوں میں قوانین کے موثر نفاذ کا فقدان گرفتار یا حراست میں لیے گئے افراد کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔

حالیہ برسوں کے دوران مراعات یافتہ افراد بھی تھانوں میں تھرڈ ڈگری سے بچ نہیں پائے۔بھارت میں حراستی اموات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن پولیس جوابدہی سے تقریباً بچ جاتی ہے۔ یہ صورت حال بھارت میں نظام انصاف میں موجود خامیوں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس صورت حال سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کافی اضافہ ہوا ہے۔