ٹویٹر کا نیا قانون: رضامندی کے بغیر تصویر شیئر کرنے پر پابندی

DW ڈی ڈبلیو بدھ 1 دسمبر 2021 15:00

ٹویٹر کا نیا قانون: رضامندی کے بغیر تصویر شیئر کرنے پر پابندی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 دسمبر 2021ء) دنیا کی معروف مائیکرو بلاگنگ اور سوشل نیٹ ورکنگ سروس ٹویٹر نے منگل کے روز اپنے صارفین کے لیے نئے ضابطوں کا اعلان کیا۔ اس کے تحت عوامی شخصیات کو چھوڑ کر صارفین کو کسی کی تصویریا ویڈیو اس کی رضامندی کے بغیر شیئر کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

اپنے نیٹ ورک پالیسیوں کو سخت کرتے ہوئے ٹوئٹر نے یہ قدم بھارتی نژاد نئے سی ای او کی تقرری کے ایک روز بعد اٹھایا ہے۔

نئے ضابطوں کے مطابق کوئی شخص ٹویٹر کو ایسی تصاویر یا ویڈیوز ہٹانے کے لیے کہہ سکتا ہے جو اس کی مرضی کے بغیر پوسٹ کی گئی ہوں۔

ٹویٹر نے ایک بلا گ پوسٹ میں کہا،'' جب بھی ہمیں کسی فرد یا اس کے مقررہ نمائندے کی طرف سے یہ اطلاع دی جائے گی کہ اس کی ذاتی تصویر یا ویڈیو کو اس کی اجازت کے بغیر شیئر کیا گیا ہے تو ہم اسے ہٹا دیں گے۔

(جاری ہے)

‘‘

کمپنی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ تصویروں کو شیئر کرنے کے حوالے سے ٹو یٹر کی اس پالیسی کا اطلاق ''عوامی شخصیات یا ان افراد پر نہیں ہوگا جنہیں عوامی مفاد میں ٹوئٹ کے متن کے ساتھ شیئر کیا گیا ہو یا جس سے پبلک ڈسکورس کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہو۔

‘‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کمپنی اس پس منظر کا تجزیہ کرنے کی ہمیشہ کوشش کرے گی جس میں مواد کو شیئر کیا گیا ہے اور اس طرح کے کیسز میں ہم '' اپنی سروس میں تصاویر یا ویڈیوز کو رکھنے کی اجازت دے سکتے ہیں۔‘‘

تصاویر کی اشاعت بحث کا موضوع

کسی فرد کی تصویر یا اس کے متعلق اعدادو شمار کی کسی تیسرے فریق کی طرف سے بالخصوص بدنیتی سے سوشل میڈیا پر اشاعت برسوں سے موضوع بحث رہاہے۔

ٹویٹر نے پرائیویسی پالیسی کے تحت پہلے سے ہی دوسرے افراد کے ذاتی معلومات مثلاً فون نمبر، پتے یا شناختی نمبر وغیرہ شیئر کرنے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔

ٹویٹر کا تاہم کہنا ہے کہ افراد کی شناخت عام کرنے، انہیں ہراساں کرنے اور دھمکانے کے لیے مواد کے استعمال کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ کمپنی نے '' اس بات کو نوٹ کیا ہے کہ خواتین، کارکنوں، ناقدین اور اقلیتی فرقوں کے افراد اس سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے

ہیں۔

‘‘

دنیا کی سب سے بڑی ویڈیو گیم اسٹریمنگ سائیٹ' ٹوئچ' پر بڑے پیمانے پر نسلی، جنسی اور ہم جنس پرستی کے نام پر استحصال جیسے آن لائن ہراسانی کے واقعات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ تاہم اس طرح کے ہراسانی کے علاوہ متاثرین کو توہین آمیز رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور آن لائن پلیٹ فارموں پر غیر قانونی طریقے سے شائع کی گئی تصویروں کو ہٹوانے کے لیے انہیں طویل قانونی چارہ جوئی کرنا پڑتی ہے۔

نئے ضابطوں کی وضاحت کا مطالبہ

ٹویٹر کے بعض صارفین نے تاہم کمپنی سے کہا کہ وہ یہ واضح کرے کہ اس کی یہ سخت پالیسی کس طرح کام کرے گی۔

سٹی یونیورسٹی آف نیویارک میں صحافت کے پروفیسر جیف جارویز نے ایک ٹویٹ میں پوچھا ہے،'' کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کوئی تصویر اتارتا ہوں، مثلاً سینٹرل پارک میں کسی کنسرٹ کی تصویر، تو کیا مجھے اس میں نظر آنے والے ہر شخص سے اجازت لینا ہوگی؟ ‘‘

خیال رہے کہ ایک روز قبل ہی ٹویٹر کے شریک بانی جیک ڈورسی نے کمپنی چھوڑنے اور سی ای او کی ذمہ داریاں بھارتی نژاد پراگ اگروال کے سپرد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

ج ا / ک م (اے ایف پی، روئٹرز)