نیشنل انشورنس کمپنی افسران کے خلاف شکایات کے انبار ، نیب متحرک

غیر قانونی من پسند بھرتیوں ، بد عنوانیوں ، جعلسازی پر مبنی ترقیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائی سینکڑوں ملازمین حقوق غضب ہونے پر پھٹ پڑے ، نیب ، وزیر اعظم ، منسٹری کامرس کو خطوط لکھ دیئے

بدھ 12 جنوری 2022 17:15

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جنوری2022ء) نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (این آئی سی ایل) کے افسران کے خلاف نیب متحرک ، تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ ادارے کے سینکڑوں ملازمین نے وزیر اعظم پاکستان سے بھی مداخلت کی اپیل کر دی۔ ذرائع کے مطابق این آئی سی ایل کے سینکڑوں ملازمین ادارے میں خلاف ضابطہ ، غیر قانونی، من پسند، غیر سند یافتہ افسران کی بھرتیوں ، بد عنوانیوں، جعلسازی پر مبنی ترقیوں ، ملازمین کے حقوق غضب کرنے کے خلاف نہ صرف پھٹ پڑے بلکہ نا انصافیوں کے خلاف ملازمین نے ادارے کے غیر قانونی اور نا اہل بھرتی کر کے مسلط کیے گئے افسران کا گھراؤ کرنے کا الٹی میٹم اور میڈیا کے سامنے بھی حقائق رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔

نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (این آئی سی ایل) کے اندرونی زرائع کے مطابق نیب ، وزیر اعظم پاکستان، منسٹری آف کامرس سمیت مختلف سرکاری اداروں کو ملازمین کی جانب سے شکایات ملیں اور کچھ درخواستیں بھی موصول ہوئیں۔

(جاری ہے)

جس پر نیب اور دیگر وفاقی تحقیقاتی ادارے متحرک ہو گئے ۔ زرائع کے مطابق این آئی سی ایل میں رولز کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں کی گئیں اور منسٹری آف کامرس کے احکامات کو بھی رد کیا گیا۔

زرائع کے مطابق این آئی سی ایل میں رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محکمے میں سی ای او کے عہدے پر 59سالہ خالد حمید کو مقرر کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر فواد احمد علی ، رضا الطاف ، اویس غنی، نوید احمد، نوید شاہد کو چیف منیجر، بلال علی ظفر کو جنرل منیجر ، عثمان غنی کو جنرل منیجر اور آصف سمیت دیگر کو گریڈ 18میں مبینہ طور پر غیر قانونی بھرتی کیا گیا۔

اسی طرح محمد علی کو گریڈ 19میں جنرل منیجر اکاؤنٹس بھرتی کیا گیا۔ زرائع کے مطابق خلاف ضابطہ غیر قانونی اور اہلیت نہ رکھنے والے بھرتی کیے گئے افسران کو وزارت کامرس کے منع کرنے کے باوجود نہ صرف بھرتی کیا گیا بلکہ ان افسران نے متعلقہ وزارت کے احکامات کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے 2کروڑ 80لاکھ روپے کی نئی گاڑیاں خرید لیں۔ زرائع کے مطابق مذکورہ بھرتی کیے گئے افسران کے خلاف نیب نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ زرائع کے مطابق مذکورہ افسران کی ڈگریاں بھی چیک کرائی جائیں گی۔