سائبر جرائم سے بچاؤ کیلئے نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے، ڈی جی ایف آئی اے ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کا کانفرنس سے خطاب

جمعہ 25 مارچ 2022 22:36

جامشورو۔25مارچ  (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی - اے پی پی . 25 مارچ 2022ء) :ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں سائبر جرائم میں بھی اضافہ ہوا ہے، 2021ءمیں ایف آئی اے کے پاس مجموعی طور پر ملک بھر سے ایک لاکھ سے زائد شکایات درج ہوئیں تاہم رواں سال کے ابتدائی 3 ماہ میں 60 ہزار شکایات درج ہو چکی ہیں، محدود وسائل کے باوجود وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے کامیابی سے اکثر شکایات کا ازالہ کیا،کئی چیلنجز درپیش ہیں جن کی وجہ محدود وسائل کا ہونا ہے، سائبر کرائم سے بچنے کیلئے نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز جامعہ سندھ جامشورو میں ڈاکٹر عبدالحسین شاہ بخاری پوسٹ گریجویٹ سینٹر کی جانب سے ”انفارمیشن و انجینئرنگ ٹیکنالوجیز میں بڑھتے ہوئے رجحانات“ کے زیر عنوان منعقد کی گئی دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے آخری روز بطور اسپیکر آن لائن خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے سائبر کرائم، ایف آئی اے میں درج شدہ شکایات کی تعداد، نوجوانوں میں آگہی مہم اور شکایات کے طریقہ کار و دیگر متعلقہ امور پر تفصیل سے بات چیت کی ۔

اس موقع پر شیخ الجامعہ سندھ پروفیسر  ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو، ڈین فیکلٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر خلیل الرحمان کھمباٹی، ڈائریکٹر ڈاکٹر اے ایچ ایس بخاری پوسٹ گریجویٹ سینٹر و عالمی کانفرنس کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر لچھمن داس دھومیجا، کانفرنس سیکریٹری ڈاکٹر ایاز علی ہکڑو، پروفیسر ڈاکٹر اظہر علی شاہ، ڈاکٹر نیاز علی آریجو، ڈاکٹر نیک محمد شیخ، ڈاکٹر شاہ مراد چانڈیو، پروفیسر آصف علی جمالی، ڈاکٹر ذیشان علی بھٹی و دیگر کئی اساتذہ، اسکالرز و محققین موجود تھے۔

ڈی جی ایف آئی اے ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی نے کہا کہ ایف آئی اے میں شکایات درج کرنے کا طریقہ آسان ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ پر جا کر آن لائن شکایات درج کرائی جا سکتی ہے اور خط و کتاب کے ذریعے بھی کمپلین کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے میں جو بھی شکایات داخل ہوتی ہیں، ان میں اکثریت طلباءو نوجوانوں کی ہیں، جن کے ازالے کیلئے کیس کی نوعیت کے حوالے سے اقدامات لیے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ سائبر سکیورٹی پر کام کرنے کیلئے جامعہ سندھ کے ساتھ بھی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کرنا چاہتے ہیں، جس کے تحت جامعہ سندھ کے نوجوانوں کو انٹرنشپ کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عباسی نے کہا کہ حال ہی میں ایف آئی اے کی جانب سے انٹرن شپ کیلئے درخواستیں طلب کرنے پر 90 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے نوجوان بڑی تعداد میں ایف آئی میں کام کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سائبر سکیورٹی و کرائم کے حوالے سے اپنے ملک میں ہی حل موجود ہواور ایف آئی اے بیرون ملک مدد کیلئے نہ جائے۔ اس ضمن میں جامعہ سندھ کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کووڈ-19 کی وجہ سے  بجٹ محکمہ صحت کی طرف منتقل کیا گیا، جس کے باعث سائبر کرائم کی روک تھام کیلئے کوئی خاطر خواہ فنڈز نہیں ملے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی جانب سے سائبر اسپیس کا گشت بھی جاری ہے۔

حال ہی میں ادارے کی جانب سے کئی سوشل سائبر حرکات کو ناکام بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائبر جرائم کے داخلے اور تفتیش کا تعلق انٹرنیٹ فراڈز اور خردبرد سے ہے۔ علاوہ ازیں مالیاتی شعبے کے اے ٹی ایم اسکیمرز، بینکنگ فراڈ، منی ایکسچینج، غبن، کریڈٹ کارڈ و ای بینکنگ فراڈ سے متعلق بھی شکایات کے جوابات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس جیسا کہ فیس بک و ٹویٹر کے ذریعے آن لائن بدنامی، ہراسمنٹ، دھمکیاں دینا اور بلیک میلنگ سے متعلق شکایات کا سامنا کرنے کیلئے سائبر دہشتگردی کے کیسز میں ویڈیو و آڈیو فرانزک تجربات کی ٹیکنیکل سہولیات فراہم کرنا سی سی ڈبلیو کے ذمرے میں آتا ہے۔

ڈی جی کا کہنا تھا کہ سائبر کرائم سے متعلق آگہی مہم کے ساتھ ساتھ تحقیق و اشاعت میں جامعات کے رضاکاروں اور انٹرنیز کو شامل کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال اور سمارٹ فونز و گجیٹس کے پھیلائوکے ساتھ 2021ءکے دوران ملک بھر سے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کو موصول شدہ سائبر جرائم سے متعلق شکایات کی تعداد ایک لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 23 فیصد شکایات میں فیس بک کو ایک میڈیم کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سائبر جرائم کی رپورٹنگ میں اضافہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لوگوں کے اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف عام آدمی ایف آئی اے کو شکایت کرتا ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام بھی ایجنسی سے رابطہ کرتے ہیں، کیونکہ سائبر جرائم کی تفتیش کرنے اور عالمی قوانین نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے یہ ملک کی واحد قانونی ایجنسی ہے۔

اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو نے ڈی جی ایف آئی اے کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایف آئی اے  اور جامعہ سندھ کے درمیان جلد ہی ایم او یو پر دستخط کیے جائیں گے تاکہ گریجویٹس کو فائدہ مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کا مین پاور بڑھانے میں مدد کی جائے گی اور اس کو اولوالعزم نوجوان فراہم کیے جائیں گے تاکہ ایف آئی اے مزید طاقتور اور مؤثر ادارہ بن سکے۔

بعد ازاں مختلف نشستوں کا آغاز ہوا، جس میں کئی ملکی و غیر ملکی اسکالرز نے اپنے ریسرچ پیپرز آن لائن و آن سائٹ پڑھے۔ کانفرنس کی اختتامی تقریب میں  پروفیسر ڈاکٹر محمد صدیق کلہوڑو نے مرکزی مقررین ناروے کے ڈاکٹر برینسن بیلی، چین کے ڈاکٹر خرم شہزاد، بہاولپور یونیورسٹی کے ڈاکٹر ریحان علی شاہ، ڈاکٹر سلیم وگھیو، ڈاکٹر پردیپ کمار و دیگر کو کانفرنس کٹس، شیلڈز اور اجرک کے تحائف بھی پیش کیے۔