نا امیدی کو دودھ پلاتی ہوئی ایک ماں یاد آتی ہے

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 1 جولائی 2022 15:20

نا امیدی کو دودھ پلاتی ہوئی ایک ماں یاد آتی ہے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جولائی 2022ء) تو آپریشن کے بعد بھی یہ دیکھ نہ پائے گا کیا؟ اس مرتبہ سوال میں امید کی ہلکی سی کرن بھی تھی۔

دیکھیں ہماری پہلی کوشش تو یہ ہے کہ بچے کی جان بچائی جا سکے، یہ کہتے ہوئے ڈاکٹر نے سر جھکا لیا۔ ماحول یکسر بدل گیا۔ داڑھی والا نوجوان اپنی شریکِ حیات سے آنکھیں چرانے لگا۔

مریم کی آنکھوں کے معائنے کے لیے ہمیں ڈاکٹر کے کمرے میں بیٹھے بہت دیر ہو چکی تھی۔

ڈاکٹر کی واپسی پر ایک نوجوان جوڑا بھی ساتھ ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ لمبی داڑھی والے نوجوان کی عمر چوبیس پچیس کے قریب لگ رہی تھی۔ پریشانی کو چھپانے کے لیے تاثرات قابو میں رکھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ کالی چادر اوڑھی ہوئی خاتون کی عمر بھی کچھ اِتنی ہی لگ رہی تھی۔

(جاری ہے)

وہ ایک گھریلو خاتون معلوم ہو رہی تھی۔ نقاب کے باعث چہرے کے خدوخال تو نظر نہ آئے مگر اس کی آنکھوں میں رتجگوں کی لال ڈوریاں بہت گہری تھیں۔

اس کی گود میں پانچ ماہ کا ایک بچہ تھا، جس کی ایک آنکھ کا پتا فقط پلکوں کی قطار ہی دے رہی تھی اور دوسری پر پلکوں کی نشاندہی بھی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ معدوم ہو چکی تھی۔

ڈاکٹر کے ساتھ یہ مکالمہ میرے وہیں بیٹھے ہو رہا تھا۔ جونہی ڈاکٹر نے اپنا آخری جملہ ''ہماری پہلی کوشش ۔۔۔‘‘ بولا، ماں اس کمرے سے باہر چلی گئی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ان کی پہلی اولاد کو آنکھوں کے پیچھے ٹیومر ہے اور عید کے بعد اس کا آپریشن ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر نے مریم کی آنکھ کا معائنہ کیا اور بہتری کی خبر دی۔ میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ڈاکٹر نے دوبارہ کہا کہ آب ریلیکس کریں! مریم کا مسئلہ عینک سے حل ہو جائے گا، سرجری کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میرے تاثرات جوں کے توں رہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر کہا، تم بہت پریشان لگ رہی ہو، کیا بات ہے؟ میں نے اکلوتی اور پہلوٹھی اولاد والے مایوس جوڑے کی طرف اشارہ کیا اور ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔

بے اختیار میرے آنسو رواں ہو گئے۔

گاڑی کی طرف آتے ہوئے وہ عورت ایک سایہ دار درخت کے نیچے اینٹوں سے بنی روش پہ بیٹھی تھی۔ اس نے منہ چادر سے چھپا رکھا تھا، سو اس کے چہرے کے تاثرات جانچنا مشکل تھا۔ اس کی بمشکل نظر آنے والی آنکھیں اشکبار تھیں، سو دل کے حالات جاننے میں مشکل نہیں ہوئی۔ وہ بچے کو گرمی میں دودھ پلا رہی تھی۔ اس کا دل میں در اصل کیا کچھ چل رہا تھا؟ یہ تو کوئی نہیں بتا سکتا مگر اس نے بچے کو سینے سے یوں لگا رکھا تھا، جیسے چند دن کے مہمان کا لمس گود میں بھر بھر کے وہ ساری عمر کی جدائی کے لیے خود کو تیار کر رہی ہے۔

وہ کیسے رو رہی تھی، کیا سوچ رہی تھی؟ آنسو تھمیں تو بچے کو دیکھوں، جو چند دن کا مہمان تھا۔ مگر یہ آنسو بدبخت۔۔۔ آنسو کیسے تھمتے؟ اب تک تو اس نے بچے کو ایک لمحہ بھی اکیلا نہ چھوڑا ہو گا۔ اب کیسے مٹی کے حوالے کر دے؟ کیا سوچ رہی تھی وہ؟ وہ بہرحال روئے جا رہی تھی۔ میں اس کے پیچھے خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔

وبا کے دن تھے، سو میں اسے گلے نہ لگا سکی۔

دلاسہ نہ دے پائی۔ فقط اس کی چادر کا وہ حصہ، جو زمین پہ پڑا تھا، اس پہ ہاتھ رکھ پائی۔ وبا میں آنسو بہانے پر کوئی پابندی نہیں تھی، سو آنکھیں چھلک پڑیں۔ اس عورت نے آنسوؤں میں ڈوبی نظریں اٹھائیں تو ایسا لگا جیسے مجھ سے کوئی شکایت کر رہی ہو۔ کس کی شکایت، یہ نہیں معلوم۔

وبا کے دیے ہوئے دکھوں میں میرا دکھ یہی رہا کہ ایک ماں کو تسلی دلاسہ نہ دے سکی۔

اب وبا کے دن گزر گئے ہیں۔ شاید وہ بچہ بھی گزر گیا ہو۔ دکھ کچھ سنبھل گیا ہو اور کیا پتہ اس کو اگلی امید لگ چکی ہو۔ ممکن ہے سب اچھا ہو چکا ہو، مگر اسے گلے نہ لگا سکنے کا دکھ ہمیشہ رہے گا۔

اس مرتبہ ماؤں کا عالمی دن اُس ماں کے نام، جو چھاؤں میں خاموش آنسو بہا رہی تھی، جس کی آنکھوں سے مہینوں کا رتجگہ چھلک رہا تھا۔ اس کے تھکے ہارے دل میں نا امیدی کے طوفان برپا تھے مگر وہ اپنے لال کو دودھ پلا رہی تھی۔