چین اور تائیوان کا تنازعہ، گرافکس میں

DW ڈی ڈبلیو بدھ 3 اگست 2022 15:40

چین اور تائیوان کا تنازعہ، گرافکس میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اگست 2022ء) پلوسی کے دورہ تائیوان کے موقع پر چین اور تائیوان کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف عسکری طاقت کے استعمال تک کی دھمکیاں سامنے آئیں ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس عسکری تناؤ کو گرافکس کے ذریعے سمجھتے ہیں۔

بیجنگ پلوسی کے اس دورے کو امریکا کی 'ون چائنا‘ پالیسی کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے۔

امریکا کی آفیشل پالیسی یہ ہے کہ وہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت کو پورے چین کی حکومت تسلیم کرتا ہے، تاہم ساتھ ہی غیررسمی طور پر تائیوان کے ساتھ تعلقات کا حامل بھی ہے اور اس کی عسکری مدد بھی کرتا ہے۔ چین میں خانہ جنگی کے دور سے تائیوان اور چین کے درمیان تقسیم پیدا ہوئی تاہم چین اب بھی تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔

(جاری ہے)

تائیوان کی حکمت عملی

دونوں ملکوں کے درمیان اگر عسکری طاقت کا موازنہ کیا جائے، تو چین کے مقابلے میں تائیوان کہیں کھڑا دکھائی نہیں دیتا۔

وہ ٹینک ہوں یا توپ خانے، لڑاکا طیارے ہوں یا بحری قوت، چین ہر ہر شعبے میں تائیوان سے کہیں آگے ہے۔ تاہم تائیوان کی ریزور فوج یا اضافی فوج چین سے زیادہ ہے۔ تائیوان نے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو فوجی تربیت دے رکھی ہے کہ اگر کبھی چین تائیوان میں عسکری مداخلت کرے، تو اس کا بھرپور جواب دیا جا سکے

۔ سن 1950 سے تائیوان چینی حملے کے سنگین خطرات کے تناظر میں اپنے دفاع کی ایک مکمل حکمت عملی بنائے ہوئے ہے، جس کے تحت سمندری بارودی سرنگوں، طیارہ شکن، بحری جہاز شکن اور ٹینک شکن میزائل ہر دم تیار رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر چین تائیوان میں داخل بھی ہو جائے تو بھی تائیوان کی چینی فورسز کے خلاف ملک کے شہروں اور دورافتادہ پہاڑی علاقوں میں گوریلا جنگ کی حکمت عملی بنائی گئی ہے۔

چینی عسکری قوت

چین دفاعی بجٹ کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس سال چین کا دفاعی بجٹ 229.5 ارب ڈالر ہے۔ چین کی اس بابت سب سے بڑی قوت اس کے لڑاکا بحری جہازوں کی تعداد ہے۔

گو کہ خطے میں امریکا کی بھاری عسکری موجودگی ہے، تاہم امریکی دفاعی بجٹ دنیا بھر میں امریکی عسکری قوت کے لیے بٹا ہوا ہے۔

پیسفیک خطے میں تاہم اب بھی امریکی قوت بھرپور ہے۔ جہاں جاپان، جنوبی کوریا اور سنگاپور میں اس کے فوجی اڈے قائم ہیں۔ چین کے پاس اس خطے میں فقط ایک بیرون ملک عسکری اڈا ہے، جو جبوتی میں ہے۔

گو کہ چین نے حالیہ کچھ برسوں میں پیسیفک خطے سے باہر بھی اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے، تاہم اس کی زیادہ تر بحری برتری جاپان سے ملائشیا تک کے سمندروں پر ہے۔

چین نے ماضی قریب میں کمپوڈیا، میانمار، تھائی لینڈ اور سری لنکا جیسے ممالک میں تجارت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں مدد کے ذریعے اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کیا ہے۔

امریکا تاہم اب بھی ایشیا کے کئی ممالک کا پسندیدہ اتحادی ہے، جن میں جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور اور تائیوان شامل ہیں۔

ع ت، ک م (روئری کیزی)