تمباکو نوشی کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم کرومیٹک ٹرسٹ کے زیر اہتمام مری میں کانفرنس کا انعقاد

پیر 19 دسمبر 2022 18:27

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 دسمبر2022ء) سگریٹ کے متبادل کے طور پر مارکیٹ میں دستیاب دیگر پراڈکٹس کے نقصانات اور سگریٹ پر ہیلتھ لیوی کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے تمباکو نوشی کے خلاف کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم کرومیٹک ٹرسٹ کے زیراہتمام مری کے مقامی ہوٹل میں کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ کانفرنس میں پاکستان بھر سے ڈیجیٹل میڈیا انفلوئنسرز اور ماہرین صحت شریک ہوئے۔

اس موقع پر کرومیٹک ٹرسٹ کے سی ای او شارق محمود خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں تمباکو مصنوعات سستی اور آسانی سے دستیاب ہونے کی وجہ سے بچوں اور نوجوانوں میں تمباکو نوشی کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے، حکومت فوری طور پر سگریٹ پر ہیلتھ لیوی ٹیکس عائد کرے جس کے نفاذ سے قومی خزانے کو 60 ارب روپے کا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔

(جاری ہے)

تمباکو پر ہیلتھ لیوی ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کو ملک بھر میں طبی سہولیات پر خرچ کرکے تمباکو کی صنعت کی جانب سے صحت کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔شارق محمود خان نے مزید کہا کہ پاکستان میں روزانہ 1200 سے زائد بچے تمباکو نوشی شروع کرتے ہیں اور ہر سال 1لاکھ 70ہزار سے زائد افراد تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اوران اعداو شمار میں ہر سال اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جو انتہائی تشویشناک ہے۔

شارق محمود خان کا کہنا تھا کہ پاکستان تمباکو پر ٹیکس لگانے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے نیچے درجے کے ممالک میں سے ایک ہے ۔ تمباکو کی مصنوعات ہماری صحت اور مالی نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہیلتھ لیوی کا نفاذ تمباکو کے استعمال کو کم کرنے اور صحت عامہ کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے ایک ضروری و دیرپا حل ہے۔شارق محمود خان نے کہا کہ دور حاضر میں ڈیجیٹل میڈیا انفلوئنسرز تمباکو نوشی کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے ساتھ تمباکو کی جدید اقسام کے استعمال سے صحت کو پہنچنے والے نقصانات کے حوالے سے عام لوگوں کی بہتر رہنمائی کرسکتے ہیں۔

کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے (سی ٹی ایف کے) کے پاکستان میں نمائندے ملک عمران احمد نے کہا کہ پاکستان میں تمباکو نوشی کے باعث صحت پر اخراجات کی لاگت تقریبا 615 ارب روپے ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کے 1.6 فیصد کے برابر ہے جبکہ تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کل لاگت کا صرف 20 فیصد ہے۔انہوں نے کہا کہ 2019 میں، وفاقی کابینہ نے تمباکو کی مصنوعات پر ہیلتھ لیوی لگانے کے بل کی منظوری دی تاکہ تمباکو نوشی کو کم کیا جا سکے اور سالانہ 60 ارب روپے حاصل کیے جا سکیں ۔

تاہم تمباکو کی صنعت کے دباؤ کی وجہ سے یہ بل پارلیمینٹ میں منظوری کیلئے پیش نہیں کیا جا سکا۔ڈاکٹر ضیاء الدین اسلام، کنٹری لیڈ وائٹل سٹریٹیجیز، نے ذکر کیا کہ تمباکو کی صنعت کے دعووں کے برعکس، جدید مصنوعات نقصان دہ ہیں کیونکہ ان میں نکوٹین ہوتی ہے جو کہ نشہ آور اشیا کے استعمال کی بہت سی دوسری اقسام کے لیے پہلی سیڑھی کا کام کرتی ہے اور نوجوانوں میں جسمانی اور ذہنی صحت کے سنگین مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔

ان پراڈکٹس کو سگریٹ نوشی ختم کرنے میں مدد دینے والی مصنوعات ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ محظ نشے کی نئی اقسام ہیں۔ جن تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ مصنوعات سگریٹ کے مقابلے میں کم نقصان دہ ہیں وہ سب تمباکو کی صنعت نے فنڈز کی ہیں۔ آزاد تحقیقات نے ان مصنوعات کے نقصانات کے بارے میں تفصیلی خبردار کیا ہے۔ انہوں نے کابینہ سے اپیل کی کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام کی منظوری نہ دے جس میں نئی مصنوعات کو قانونی حیثیت دی جائے۔

کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن ) کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کی ممبر اور ماہر قانون آمنہ شیخ نے کہا کہ بچے اور کم آمدنی والے لوگ تمباکو کی صنعت کا بنیادی ہدف ہیں۔تمباکو کی نئی مصنوعات پر پابندی کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے آمنہ شیخ نے کہا کہ شیشہ، ای سگریٹ اور نکوٹین پائوچز جیسی مصنوعات نوجوان نسل کے لئے تباہ کن ہیں، دنیا بھر میں تمباکو کی صنعت سے وابستہ بزنس مین ہمارے نوجوانوں کو نشے کی لت میں مبتلا کرنے کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہے۔

کینسر کا باعث بننے والے کیمیکل سے جڑی یہ مصنوعات نکوٹین پائوچز، اور چیونگم کے طور پر پاکستان کی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جن کے سدباب کے لئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ کانفرنس میں شریک ڈیجیٹل میڈیا انفلوئنسرز اور ماہرین صحت نے تمباکو نوشی کے خلاف موثر آواز اٹھانے پر کرومیٹک ٹرسٹ کی کوششوں کو سراہنے کے ساتھ اس ناسور کے خاتمہ میں اپنا کردار کرنے کے عزم کا اظہار کیا، ساتھ ہی ڈیجیٹل میڈیا انفلوئنسرز نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہیلتھ لیوی بل کو فوری طور پر پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے تاکہ یہ ایکٹ بن کر پورے ملک میں نافذ ہو سکے ۔