خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے، وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ

جنس کا تعین انسان کے احساسات کی بنیاد پر نہیں کیاجا سکتا، وفاقی شرعی عدالت

جمعہ 19 مئی 2023 15:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 مئی2023ء) وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے اور جنس کا تعین انسان کے احساسات کی بنیاد پر نہیں کیاجا سکتا۔وفاقی شرعی عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین نے خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف کیس کا محفوظ سنایا۔

انہوں نے فیصلہ سناتے ہوئے ہوئے کہا کہ خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے جبکہ وہ مرد یا عورت بھی نہیں کہلوا سکتے۔اس حوالے سے کہا گیا کہ اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے لہٰذا حکومت اس بات کی پابند ہے کہ ایسے افراد کو طبی، تعلیمی، معاشی سہولیات کے ساتھ ساتھ تمام حقوق دینے کی پابند ہے۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہا کہ وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے اور مرد ہو یا عورت، وہ خود کو بائیولاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیرشرعی ہوگا۔

وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا کہ جنس کا تعلق انسان کے بایولوجیکل سیکس سے ہوتا ہے، نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے اور جنس کا تعین انسان کے احساسات کی بنیاد پر نہیں کیاجا سکتا۔فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام میں خواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں اور خواجہ سرا آئین میں درج تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں۔

فیصلے میں کہاگیاکہ خواجہ سراؤں کی جنس کی تعین جسمانی اثرات پر غالب جنس کی بنیاد پر پر کیا جائے گا، جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا۔عدالت نے کہا کہ شریعت کسی کو نامرد ہوکر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی لہٰذا کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کر سکتا اور جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی۔یاد رہے کہ یہ قانون 25 ستمبر 2012 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بنایا گیا تھا، اس قانون میں کہا گیا تھا کہ خواجہ سراؤں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جن کی آئین ضمانت دیتا ہے، خواجہ سرا معاشرے کے دیگر افراد کی طرح حسب معمول زندگی گزار سکتے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ سنایا تھا، یہ درخواست اسلامی ماہر قانون ڈاکٹر محمد اسلم خاکی کی طرف سے دائر کی گئی تھی، جس میں ہرمافروڈائٹ بچوں کی آزادی کی درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ بھیک مانگنے، ناچنے اور جسم فروشی کے بجائے ’باعزت طریقے‘ سے زندگی بسر کر سکیں۔

قومی اسمبلی نے ٹرانس جینڈر کو قانونی شناخت دینے کے لیے ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹ) ایکٹ منظور کیا تھا، اس ایکٹ کے تحت خواجہ سراؤں کے ساتھ کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک کرنے والا شخص سزا کا مرتکب ہوگا۔گزشتہ ماہ وفاقی شرعی عدالت نے 2018 سے نافذ العمل ٹرانس جینڈر ایکٹ کو اسلامی احکام کے منافی‘ قرار دے کر چیلنج کرنے والے متعدد افراد کو اس قانون کے خلاف درخواستوں میں فریق بننے کی اجازت دی تھی۔ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 کے خلاف دائر کردہ درخواست میں پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور خواجہ سرا الماس بوبی نے استدعا کی تھی کہ درخواستوں پر سماعت کے دوران انہیں دلائل دینے کی اجازت دی جائے۔