گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین کی ذمہ داریاں

DW ڈی ڈبلیو منگل 18 جولائی 2023 13:20

گرمیوں کی چھٹیوں میں والدین کی ذمہ داریاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 جولائی 2023ء) تو ایسے میں تمام بہن بھائیوں میں ایک ریس شروع ہو جاتی کہ کون سب سے پہلے وکیشن ورک مکمل کرتا ہے اور پھر اس کے بعد کی فرصت کا تصور ہی سرشار کر دینے کو کافی تھا۔

ہمارا دور تو اب گزر چکا، ہماری دل چسپی کے سامان اس زمانے میں متروک ہو چکے۔ معاشی مسائل، منہگائی اور کچھ زندگی کی تیز رفتاری۔

کیا دور تھا، جس میں چھٹیوں میں پتنگیں اڑانا، نانی کے گھر جانا اور جب کبھی والدین کے پاس وسائل ہوئے تو کسی پہاڑی علاقے کا سفر، یہ سب اب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔

اولاد کی تربیت میں والدین کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے!

ہمارے وقت میں ویڈیو گیمز، پلے سٹیشن، موبائل فون، ٹیبلٹ ، آئے پیڈز، کمپیوٹر گیمز اور گھروں سے باہر ایک غیر یقینی اور عدم تحفظ کی فضا اس قدر عام بھی نہیں تھی۔

(جاری ہے)

ایسے میں یہ احساس ہوتا ہے کہ موجودہ دور کے بچوں کو درپیش چیلنجز ہمارے دور سے مختلف ہیں۔

بچے یا ریس کے گھوڑے؟

تعلیمی ادارے بچوں پر غیر معمولی تعلیمی و دیگر اقسام کے بوجھ ڈالے رکھتے ہیں اور مخصوص نظم و ضبط کے ساتھ ہونے والی تعلیمی سر گرمی کسی حد تک جسمانی و ذہنی طور پر تھکا دینے والی بھی ہوتی ہے۔ گرمیوں کی چھٹیاں جہاں بچوں کو معمول سے ہٹ کر کچھ کرنے کا موقع دیتی ہیں وہیں کلاس رومز اور سکول کی گھٹن کی فضا سے باہر نکل کر اپنے مشاہدے و تجربے کو بڑھانے کا ایک ذریعہ بھی بن سکتی ہیں۔

کسی بھی انسان کی شخصی نمو اور اپنی شخصت میں توازن کے لیے مذکورہ بالا تمام سر گرمیاں نہایت ضروری ہیں۔ اس لیے ایک وقت آتا ہے جب بچوں کو منظم انداز میں تقسیم وقت سے زیادہ سکون بخش فرصت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور گرمیوں کی چھٹیاں انھیں یہ موقع فراہم کرتی ہیں۔ یہ سب نہ صرف ان کی شخصی تربیت کے لیے ضروری ہے بلکہ اس سے بچوں کی خود اعتمادی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

کیریئر کونسلنگ کیوں ضروری ہے؟

اسی طرح گرمیوں کی چھٹیاں والدین کے لیے بھی راحت کا ذریعہ ہیں ۔ صبح انہیں تیار کرنا، لنچ باکس بنا کر دینا، سکول تک لانے اور لے جانے جیسی مصروفیات سے عارضی ہی سہی لیکن نجات مل جاتی ہے۔

لیکن ایک ماں کے طور پر میں محسوس کرتی ہوں کہ عام دنوں کی نسبت گرمیوں کی چھٹیوں میں میری ذمہ داریوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

کووڈ کی پابندیوں کی وجہ سے تعلیمی ادارے تقریباً دو برس بند رہے یا صرف جزوی طور پر فعال تھے اور اس کے بعد معمول کی تعلیم کے ساتھ خود کو دوبارہ سے ہم آہنگ کرنا نہ صرف بچوں کے لیے مشکل تھا بلکہ والدین کے لیے بھی خود کو ایک بار پھر سے اسی پرانی روٹین پر واپس لانا آسان نہیں تھا۔

اب جب کہ زندگی معمول پر لوٹ آئی ہے، تعلیمی سر گرمیاں دوبارہ سے شروع ہو چکیں ہیں تو ایسے میں بچوں کے تعلیمی معیار کو برقرار رکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

اور ویسے بھی پورے سال میں یہی وہ چند ماہ ہیں جن میں والدین اور بچے ایک دوسرے کو ہمہ وقت میسر رہتے ہیں۔

ان تعطیلات کے دوران میں، میں نے بچوں کی تعلیم اور تربیت کے لیے کچھ اہداف مقرر کیے ہیں، جو میں اپنے قارئین کے ساتھ بھی بانٹنا چاہوں گی۔

بچوں کو سیاسی مباحث کا حصہ بنانا چاہیے؟

کورس کے علاوہ کتابوں کا مطالعہ، واقفیت عامہ کی ڈاکیومینٹریز، تعلیمی کھیل نہ صرف ان کے ننھے دماغوں میں تجزیاتی سوچ کو پروان چڑھائیں گے بلکہ انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر اس طرح فعال رکھیں گے کہ تعطیلات کے بعد سکول کھلنے پر معمول کی تعلیم کی طرف لوٹنے میں انہیں کوئی دقت پیش نہ آئے۔

دوسرا اہم نکتہ بچوں کی کردار سازی ہے۔ تعلیمی اداروں کے مصروف شیڈیول سے فرصت کا یہ وقت والدین کے لیے ایک اہم موقع ہے، جس میں نہ صرف بچوں میں معاشرتی و سماجی شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے، انہیں عزت و احترام، ہمدردی اور احساس ذمہ داری جیسے انسانی اوصاف سے نہ صرف آگاہ کیا جا سکتا ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی گھریلو ذمہ داریوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنا کر ان میں احساس ذمہ داری بھی پیدا کیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح فرصت کے یہ دن خاندان کے افراد کے درمیان ایک مضبوط اور محبت بھرا تعلق قائم کرنے کا شان دار موقع فراہم کرتے ہیں۔ مل جل کر باہمی دل چسپی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے نہ صرف ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے بل کہ تمام عمر ساتھ رہنی والی خوش گوار یادیں بھی اکٹھی ہوتی ہیں۔

اس سب کے ساتھ ساتھ اگر دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو عام دنوں کی نسبت چھٹیوں کے دنوں میں والدین اور خصوصاً ماؤں کی ذمہ داریاں کچھ بڑھ بھی جاتی ہیں۔

صبح بچوں کو سکول بھجوانے کے بعد گھر کے کام کاج شروع کرنے سے پہلے فرصت کے جو چند لمحات میسر آتے تھے وہ عنقا ہو جاتے ہیں۔ کام کرنے والی خواتین کے لیے پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمہ داریوں میں توازن قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ایسے میں بچوں کو مثبت سر گرمیوں میں باندھے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان اوقات میں جب بچے بوریت کا شکار ہو کر خود اپنے لیے کوئی مصروفیت ڈھونڈنے لگیں، تب اس بات کو یقینی بنانا مشکل ہو جاتا ہے کہ معمولات میں ایک نظم و ضبط برقرار رہے اور وہ اپنا فالتو وقت سکرین سے جڑے رہنے کی بجائے مثبت سر گرمیوں میں گزاریں۔

اسی طرح یہ وقت بچوں کی اخلاقی تربیت اور خاندان کے باہمی تعلق کو مضبوط کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

اگرچہ بہ ظاہر یہ ایک مشکل کام ہے لیکن تھوڑی سی منصوبہ بندی اور توجہ کے ذریعے والدین نہ صرف اس وقت کے بہ ترین مصرف کو ممکن بنا سکتے ہیں اور بچوں کو معاشرے کا ایک مفید رکن بنانے میں اپنا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔