ریٹرننگ افسرکا فیصلہ برقرار، الیکشن ٹریبونل نے میانوالی سے عمرا ن خان کو ا لیکشن کیلئے نااہل قراردیدیا

بدھ 10 جنوری 2024 22:49

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 10 جنوری2024ء) ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ کے جسٹس چوہدری عبدالعزیز پر مشتمل خصوصی الیکشن ٹریبونل نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 89 (میانوالی ) سے کاغذات نامزدگی مستر د کرنے کے خلاف تحریک انصاف کے سابق چیئرمین کی اپیل خارج کردی ہے ٹریبونل نے متعلقہ ریٹرننگ افسر کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے سابق چیئرمین کو بطور امیدوار الیکشن کے لئے نااہل قرار دے دیا ہے سابق چیئرمین کے کاغذات نامزدگی پر حلقہ این اے 89 سے امید وار خرم حمید نے اعتراض لگایا گیا تھا کہ سابق چیئر مین عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے ناطے آئین کے آرٹیکل 62 پر پورا نہیں اتر تے دوسرے امیدوار خلیل الرحمان خان کی جانب سے اعتراض تھا کہ سابق چیئر مین سزا یافتہ ہونے کے ناطے پاکستان کے لئے سکیورٹی رسک ہیں جبکہ ان کے کاغذات نامزدگی پر موجود دستخط بھی غلط اور فرضی ہیں اسی طرح پنجاب ایمپلائز سوشل سکیورٹی انسٹی ٹیوشن جوہر آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے اعتراض میں کہا تھا کہ درخواست گزار کے ذمہ جولائی 2022 سے اکتوبر 2023 تک سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے 36 لاکھ 88 ہزار 680 روپے واجب الادا ہیں اپیل کی سماعت کے دوران سابق چیئر مین کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا موقف تھا کہ جن اعتراضات پر درخواست گزار کے کاغذات نامزدگی مسترد کئے گئے ان میں درخواست گزار کے ذمہ جولائی 2022 سے اکتوبر 2023 تک سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے 36 لاکھ 88 ہزار 680 روپے واجب الادا ہیں اور درخواست گزار عدالت سے سزا یافتہ ہونے کے ساتھ الیکشن کمیشن سے بھی نااہل ہے سابق چیئر مین کے وکیل نے ریٹرننگ افسر کے فیصلے کو غیر آئینی، غیر قانونی اور حقائق کے منافی قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ نمل یونیورسٹی (Namal University) کے بورڈ کا چیئر پرسن ہونے کے ناطے یہ واجبات درخواست گزار کے ذمہ نہیں آتے جبکہ اس حوالے سے اپیل کنندہ کو کبھی کوئی نوٹس بھی جاری نہیں کیا گیا اسی طرح الیکشن ایکٹ 2027 کے تحت الیکشن کمیشن کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ نا اہلی کے آرڈر جاری کرے کیونکہ اس سارے معاملے میں کسی جگہ بھی اخلاقی پستی کا معاملہ نہیں بنتا اس کے باوجود ریٹرننگ افسر اس بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتا کہ معاملہ اخلاقی پستی کا ہے یا نہیں جس پر ٹریبونل نے ریمارکس دیئے کہ اس کا فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے لہذا پہلے اس پر بات کر لیتے ہیں جس پر سابق چیئرمین کے وکیل نے اخلاقی پستی کے مختلف حوالے دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ کسی جگہ اخلاقی پستی کی کوئی وضاحت نہیں ہے عدالت نے استفسار کیا کہ ہم یہاں توشہ خانہ کے میرٹ پر بات نہیں کرتے لیکن تو شہ خانہ سے جو چیزیں لی گئیں کیا ان کی تفصیلات کاغذات نامزدگی کے ساتھ دی گئیں اور جو پیسہ تو شہ خانہ کی چیزیں بیچ کر حاصل کیا گیا اس کے بارے میں بتایا گیا تھا جس پر سابق چیئرمین کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ جی بتایا گیا تھا لیکن مقدمہ میں سزا معطلی کے بعد 63(I)(h) قابل عمل نہیں رہتا لیکن ریٹرنگ افسر کا بھی یہی موقف تھا کہ چونکہ اس پر الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا ہوا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کے ڈی جی لامحمد ارشد کا موقف تھا کہ سابق چیئر مین کو مقدمہ میں سزا سنائی گئی اور عدالت نے واضح کیا کہ وہ صادق اور امین نہیں ہیں جبکہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف سابق چیئرمین نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا جہاں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی سزا معطل ہوئی ہے ڈی جی لا کا موقف تھا کہ آئین کی کسی شق کو الگ نہیں پڑھا جا سکتا ریٹرنگ افسر نے تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ اس کے سامنے پیش ہونے والا شخص صادق اور امین ہے یا نہیں جب ایک بندہ صادق اور امین ہی نہیں تو ریٹرننگ افسر نے تو فیصلہ دینا تھا سابق چیئر مین کی جانب سے غلط ڈیکلیریشن دی گئی جس سے قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچا عدالت نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد اپیل خارج کردی۔