برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف پرتشددواقعات میں اضافہ‘ شام ہونے کے بعد گھروں سے نکلنا بند کردیاہے.مسلمان کمیونٹی

بہت سے واقعات میں فلسطین کی حمایت کرنے کی وجہ سے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ‘ فلسطینی پرچم آویزاں کرنے کے بعد گھروں کی کھڑکیوں پر اینٹیں پھینکی گئیں‘طالب علموں کو تعلیمی اداروں میں ساتھیوں اور اساتذہ کی جانب سے امتیازی سلوک کا سامنا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 26 فروری 2024 13:40

برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف پرتشددواقعات میں اضافہ‘ شام ہونے کے بعد ..
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 فروری۔2024 ) برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف پرتشددواقعات میں اضافے کے بعد برطانوی مسلمانوں کی اکثریت نے شام ہونے کے بعد گھروں سے نکلنا بند کردیا ہے‘ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد برطانیہ سمیت بیشتریورپی ممالک میں اسلاموفوبیا کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے.

(جاری ہے)

لندن کے خیراتی ادارے اسلاموفوبیا رسپانس یونٹ (آئی آر یو) کا کہنا ہے کہ بہت سے واقعات میں فلسطین کی حمایت کرنے کی وجہ سے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ہے برطانوی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ فلسطینی پرچم آویزاں کرنے کے بعد ان کے گھروں کی کھڑکیوں پر اینٹیں پھینکی گئی ہیں جبکہ ایک نوجوان کا کہنا ہے کہ فلسطینی بیج آویزاں کرنے کے بعد سکول میں اساتذہ نے ان سے پوچھ گچھ کی.

برطانوی نشریاتی ادارے نے آئی آریو کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل میں حماس کے حملوں، جن میں12سو سے زائد افراد مارے گئے، کے بعد اکتوبر میں اسلامو فوبیا کی رپورٹوں میں 365 فیصد اضافہ دیکھا گیا برطانیہ کی یہودی کمیونٹی کو یہود مخالف واقعات میں اضافے کا سامنا کرنا پڑا، کمیونٹی سکیورٹی ٹرسٹ چیریٹی نے اس ماہ کے شروع میں انکشاف کیا تھا کہ 2023 میں ریکارڈ تعداد دیکھی گئی، جس میں سات اکتوبر سے اب تک6ہزار992 واقعات بھی شامل ہیں.

آئی آر یو کے سی ای او ماجد اقبال نے کہا کہ اکتوبر 2023 کے بعد سے آئی آر یو نے یونٹ کو ملنے والی رپورٹوں میں مسلسل اضافہ دیکھا ہے یہ واضح ہے کہ یہ اب ایک طویل مدتی رجحان کی شکل اختیار کر رہا ہے اور اس سے متاثر ہونے والوں پر گہرا اثر پڑ رہا ہے آئی آر یو پریس اور سیاست دانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی جائز سرگرمی کو، اس کے ساتھ برطانوی مسلمانوں کو بدنام نہ کریں اور اسلامو فوبیا کے سنگین سماجی مسئلے میں مبتلا ہونے سے گریز کریں.

یہ اعداد و شمار اس ہفتے کے شروع میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات کو ریکارڈ کرنے والے ایک اور ادارے ٹیل ماما کی ایک رپورٹ کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ سات اکتوبر سے سات فروری کے درمیان 2010 واقعات پیش آئے، جو گذشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران رپورٹ ہونے والے 600 واقعات سے تین گنا زیادہ ہیں. یہ دونوں اعداد و شمار اسی ہفتے سامنے آئے ہیں جب لندن کے میئر صادق خان کے بارے میں اسلامو فوبک قرار دے کر مذمت کیے جانے والے بیان کے بعد ٹوری پارٹی کے رکن پارلیمنٹ لی اینڈرسن کو کنزرویٹو پارٹی نے معطل کر دیا تھا آئی آر یو کو رپورٹ کیے گئے کیسز میں ایک 17 سالہ لڑکے کا کیس بھی شامل ہے جن کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اپنے سکول بیگ پر فلسطین کا بیج لگایا تو اساتذہ نے ان سے ان کے عقیدے اور حماس کے بارے میں ان کی سمجھ بوجھ کے بارے میں پوچھ گچھ کی.

لندن سے تعلق رکھنے والے 13ویں جماعت کے طالب علم کا کہنا تھا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا، جس کی وجہ سے ان پر انگزائٹی کا حملہ ہوا اور امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا‘ان کا کہنا تھا کہ ’میرا بیج ہٹانے کے لیے پڑھائی کے دوران کھینچنے کے واقعات سے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھے اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ میں ایک مسلمان تھا، جس سے مجھے ایسا لگا کہ میں کچھ غلط کر رہا ہوںانہوں نے بتایا کہ دھمکی آمیز پوچھ گچھ، جس کا مجھے سامنا کرنا پڑا نشانہ بنائے جانے کا یہ احساس شدت اختیار کر گیاطالب علم کو توقع تھی کہ دو اساتذہ کے ساتھ ایک سیف گارڈ میٹنگ کے دوران وہ اپنی ذہنی صحت کے بارے میں بات کر سکیں گے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے ان سے کیا آپ مسلمان ہیں؟کیا آپ مسجد جاتے ہیں، اور کیا آپ کے پاس برطانوی پاسپورٹ ہے جیسے سوالات پوچھے گئے.

آئی آر یو کو رپورٹ کیے گئے ایک دوسرے واقعے میں ایک 32 سالہ ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ ایک حملے کے بعد اپنے گھر سے نکلنے سے ڈرتے ہیں ان کے خیال میں یہ حملہ فلسطین کے لیے ان کی حمایت کی وجہ سے ہوا پانچ فروری کو یہ فرد ایک زوردار دھماکے کی وجہ سے بیدار ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ مانچسٹر میں ان کے گھر کی کھڑکی ایک بڑا پتھر مار کر توڑ دی گئی ہے جس پر فلسطینی پرچم آویزاں تھا اس واقعہ کی وجہ سے وہ سو نہیں سکے اور تناﺅ کی وجہ سے انہیں کام سے دو ہفتے کی چھٹی لینی پڑی.

انہوں نے جریدے کو بتایا کہ یہ واقعہ انتہائی تکلیف دہ رہا اور اس نے میری صحت پر نمایاں اثر ڈالا ہے میں سو نہیں رہا ہوں میں صبح چار یا پانچ بجے تک صرف چلتا پھرتا رہتا ہوں کیونکہ میں اس پراپرٹی میں سونے سے بہت ڈرتا ہوں اب میں غروب آفتاب کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلتا، کیوں کہ میں بہت خوفزدہ ہوں انہوں نے بتایا کہ میں جلد ہی تناﺅ کے باعث دو ہفتے کی چھٹی کے بعد کام پر واپس جاﺅں گا لیکن میں اس بارے میں بہت فکرمند ہوں کہ اس واقعے سے بطور ڈاکٹر میری پیشہ ورانہ کارکردگی پر کیا اثر پڑے گا مجھے نہیں معلوم کہ میں مریضوں کے ساتھ کیسے کام کروںگا جب کہ میں سو نہیں پاتا.