مکئی نے پاکستان کی بڑی برآمدات میں جگہ بنالی
چاول کی بھی بہتر کارکردگی، عالمی حالات نے مواقع پیدا کیے، اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار
بدھ 28 فروری 2024 14:10
(جاری ہے)
پانچ سال قبل مکئی کی برآمدات 10 لاکھ ڈالر سے کم تھیں۔
مکئی کی برآمدات اب ٹیکسٹائل سے ہٹ کر تین بڑی برآمدات میں شامل ہیں۔ یہ کامیابی خوش کن بھی ہے اور پریشان کن بھی۔ خوش کن اس لیے کہ مکئی کی برآمدات اپنے طور پر بڑھی ہیں، حکومت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔یہ کامیابی پریشان کن اس لیے ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر سے ہٹ کر برآمدات اتنی کم ہیں کہ محض 30 کروڑ ڈالر سالانہ کا ہدف پار کرنا بھی قابلِ ذکر ٹھہرا ہے۔رواں مالی سال کے دوران پاکستان چاول اور مکئی کی برآمد سے اضافہ ڈیڑھ ارب ڈالر کمائے گا۔ اس سے گندم کی درآمد کا متوازن بنانے میں مدد ملے گی۔اگر معاملات یہی رہے تو رواں مالی سال میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ چاول، مکئی اور گنے سے تیار شدہ مصنوعات(گڑ، ایتھانول وغیرہ)سے ہونے والی آمدن گندم اور کپاس کے مجموعی درآمدی بل سے زیادہ ہوجائے گی۔یہ صورتِ حال ان تمام ماہرین کے لیے دلچسپ ہوگی جو فصلوں کے پیٹرن کو گندم اور کپاس سے ہٹاکر چاول، گنے اور مکئی کے پیٹرن میں تبدیل کرنے پر واویلا مچاتے رہے ہیں۔چاول اور مکئی کی برآمد میں اضافہ چند مواقع پیدا ہونے سے ممکن ہوسکا ہے۔ گزشتہ برس بھارت نے چاول برآمد کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی چاول کی برآمدات عشرے کی بلند ترین سطح پر رہیں۔سویا بین کی درآمد پر پابندی نے بھی مکئی کی برآمدات کو بڑھاوا دیا ہے۔ حالات بدلنے سے اگلے مالی سال میں چاول اور مکئی کی برآمد کا گراف گر بھی سکتا ہے۔حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں پولٹری فیڈ انڈسٹری کی طرف سے طلب میں واضح کمی کے باوجود مکئی اگانے والوں نے بھی مشکلات کا رونا نہیں رویا۔ جب مقامی طلب گھٹ گئی تو کارن پروسیسرز نے خود کو بین الاقوامی مسابقت سے دوچار پایا۔ انہیں حکومت کی طرف سے کوئی رعایت ملی نہ مالی مدد ۔دیگر صنعتوں کی طرح حالات کا رونا رونے کے بجائے مکئی اگانے والوں اور پروسیسنگ کرنے والوں نے عالمی معیارات اپناکر حالات بہتر بنائے۔ پاکستانی پیداوار کی ملائیشیا، ویتنام، سری لنکا اور دیگر ممالک میں طلب موجود ہے۔بیشتر مبصرین نے کہاکہ غیر روایتی کیٹیگری میں پاکستانی برآمدات میں کمی توانائی کے بحران، ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر اور حکومتی مداخلت کے باعث ہے۔ ڈیری سے پولٹری اور گوشت تک بیشتر برآمدات کی کمی کا بنیادی سبب عالمی معیارات نہ اپنانا اور ویلیو چین کو نہ سمھجھنا ہے۔مقامی سرمایہ کاری کی کمی بھی ایک اہم عامل ہے اور ملٹی نیشنل کلائنٹس کے لیے ایڈوائزری کردار ادا کرنے سے بھی اجتناب برتا جاتا رہا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر بھی اس حوالے سے اپنے حصے کا کام کرنے سے قاصر رہا ہے۔ماہرین کے مطابق ہمارا کارپوریٹ سیکٹر ملکی مارکیٹ پر زیادہ توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ معاشی پالیسی کی کمزوری کے ساتھ ساتھ برآمدات میں کارپوریٹ سیکٹر کی عدم دلچسپی بھی نمایاں ہے۔مزید زراعت کی خبریں
-
کاشتکارکپاس کی کاشت ترجیحا 15 مئی تک مکمل کرلیں، ترجمان محکمہ زراعت
-
کپاس کے کاشتکاروں کیلئے 15 روزہ سفارشات جاری
-
محکمہ زراعت کا کپاس کی ریکارڈ پیداوارحاصل کر نے کےلئے کاشتکاروں کو تمام ممکن سہولیات کی فراہمی کا اعلان
-
محکمہ زراعت کا ٹماٹرکے کاشتکاروں کوآبپاشی میں احتیاط برتنے کامشورہ
-
کھجو ر کے باغبانوں کو درختوں کی شاخ تراشی کی ہدائت
-
تلسی کے کاشتکاروں کو بہتر پیداوار کے حصول کیلئے آبپاشی کا خصوصی خیال رکھنے کی ہدایت
-
بی ٹی اقسام کےخلاف قوت مدافعت روکنے کےلئے کاشتکارکم از کم10فیصد رقبے پر نان بی ٹی اقسام کی کپاس کاشت کریں،ماہرین زراعت
-
ساہیوال نسل کی گائے سب سے زیادہ دودھ دینے والے پالتو جانوروں میں پہلے نمبرپر آگئی
-
پاکستان بزنس فورم کی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس
-
مشروم کی 150 اقسام ، ہزاروں لوگ مشروم کی ایکسپورٹ کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کما رہے ہیں، ترجمان آری
-
پنجاب حکومت کا اگلے 2 سالوں کے دوران کاشتکاروں کو 60 فیصد سبسڈی پر 56 اقسام کے زرعی آلات فراہم کرنے کا فیصلہ
-
کماد کے کاشتکاروں کو فصل کی گوڈی اور نائٹروجن کھاد کی دوسری قسط ڈالنے کے بعد آبپاشی کی ہدایت
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.