Live Updates

ریاست شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے کیا کر رہی ہی آڈیو لیک کیس کی سماعت 14 مارچ تک ملتوی

پیر 4 مارچ 2024 22:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 مارچ2024ء) اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم کی اہلیہ بشری بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کو 14 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے جسٹس بابر ستار نے کہا ہے کہ ریاست شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے کیا کر رہی ہی پیر کو جسٹس بابر ستار نے کیس کی سماعت کی۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی ای)کی جانب سے وکیل عرفان قادر ایڈووکیٹ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔وکیل عرفان قادر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ درخواستوں گزاروں کی استدعا کے مطابق یہ کیس غیرمثر ہو چکا، اسے نمٹا دیا جائے۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ اس عدالت کے سامنے دو الگ درخواستیں ہیں اور وکیل سے دریافت کیا کہ چیئرمین پی ٹی اے کہاں ہیں جس پر وکیل نے جواب دیا کہ چیئرمین پی ٹی اے بارسیلونا گئے ہوئے ہیں، تین چار دن میں واپس آ جائیں گے۔

(جاری ہے)

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ پی ٹی اے کی جانب سے قانونی رکاوٹ موجود ہے، اس پر جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ پہلے تو پی ٹی اے نے کہا تھا کوئی لیگل انٹرسیپشن (قانونی رکاوٹ)موجود نہیں ہے تو پھر تو پی ٹی اے کو پہلے جمع کرایا جواب واپس لے لینا چاہیے اس پر پی ٹی اے حکام نے کہا کہ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔بعد ازاں جسٹس بابر ستار نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی اے کو حکم دیا تھا کہ بیان حلفی جمع کرائیں، پہلے پی ٹی اے نے کچھ اور جواب دیا، اب کچھ اور کہہ رہے ہیں، کیا چیئرمین پی ٹی اے نے اپنا بیان حلفی جمع کروا دیا ہی میں پی ٹی اے کا وکیل رہا ہوں، مجھے معلوم ہے کہ لیگل انٹرسیپشن موجود ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ٹیلی فون آپریٹرز عدالت میں آ کر جھوٹ بول دیں، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے جواب جمع کرایا کہ لیگل انٹرسیپشن موجود ہی نہیں، پی ٹی اے یہ پوزیشن لے کر کیوں خود کو شرمندہ کر رہا ہی پی ٹی اے اب اپنے موقف سے پیچھے ہٹتا ہے تو ہٹ سکتا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم نے اس معاملے کو کسی طرف تو لے جانا ہے۔وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جس نے بھی پی ٹی اے کی جانب سے کہا وہ بھی میں دیکھ لوں گا، ہم نے کسی کو اجازت نہیں دی ہوئی ہے، اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی اے کو آئندہ سماعت پر دوبارہ طلب کر لیا۔جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ ٹیلی کام آپریٹرز بتا دیں گے ان کو کہا گیا ہے یا نہیں۔

وفاقی حکومت تو کہہ رہی ہے کہ انہوں نے تو آج تک کسی کو اجازت نہیں دی، وکیل عرفان قادر نے موقف اپنایا کہ وفاقی حکومت قانون کے مطابق اس کی اجازت دیتی ہے، ان لائسنسز میں قانون کی یہ شقیں کیوں رکھی جاتی ہیں، یہ دیکھنا ہے، پی ٹی اے نے کسی کو ہدایات جاری نہیں کیں ان لائسنسز میں قانون کی یہ شقیں کیوں رکھی جاتی ہیں یہ دیکھنا ہے۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ہم بھی یہی سمجھنا چاہتے ہیں، وکیل نے بتایا کہ پی ٹی اے نے کسی کو ہدایات جاری نہیں کیں، سرکاری افسران آپ سے گھبرا جاتے ہیں میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

وکیل بشری بی بی سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ کتنا عجیب جواب ہے کہ سیکشن 19 میں یہ مان رہے ہیں یہ جرم ہے لیکن یہ پورا پورا دن ٹی وی چینلز پر اسے چلاتے رہے ہیں۔اس پر جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے مستقبل میں اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے۔سردار لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہم سب کی رازداری خطرے میں ہے، یہ نہیں ہو سکتا میں مکل سے بات کر رہا ہوں اور اس کو کوئی اور بھی سن رہا ہو۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ کیا کوئی فریم ورک ہے کس قانون کے تحت انہوں نے ریاست کو سہولت فراہم کی ہوئیں ہیں لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ہماری آڈیو جو لیک ہوئی وہ اصلی تھی۔اس موقع پر وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا اتنا بڑا سمندر ہے، فیس بک یوٹیوب ہماری ایجنسیز کے دائرے اختیار سے باہر ہیں، مرحوم جج ارشد ملک کی آڈیو بھی لیک ہوئی تھی، پھر پانامہ کیس کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے۔

جسٹس بابر ستار نے ٹیلی کام کمپنی کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ ریاست یہ پوزیشن لے رہی ہے کہ کوئی لیگل اتھارٹی نہیں، یہ آپ نے بتانا ہے کہ شہریوں کی پرائیویسی محفوظ ہے یا نہیں ہی وکیل عرفان قادر نے جواب دیا کہ پالیسی، ایکٹ، لائسنس کچھ اور کہتے ہیں۔جسٹس بابر ستار نے کہا ریاست کا موقف ہے یہ سب کچھ پرائیویٹ ہو رہا ہے، اس میں ہمارا کچھ نہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دگل نے عدالت کو بتایا کہ بشری بی بی کے کیس میں متفرق درخواست دائر کی ہے، یہ از خود نوٹس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، یہ ازخود نوٹس نہیں بلکہ ہمارے سامنے پٹیشن ہے، ڈی جی آئی بی کو ہم نے اس لیے بلایا ہے کہ یہ سمجھائیں، یہ بھی کہا کہ آپ کو بار بار موقع دے رہے ہیں جواب دے سکتے ہیں۔

بعد ازاں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو فواد اسد اللہ بھی جسٹس بابر ستار کی عدالت میں پیش ہوئے، جج نے دریافت کیا کہ ریاست شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کے لیے کیا کر رہی ہی کیا ٹیلی کام آپریٹرز فون ٹیپنگ کی اجازت دے رہے ہیں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ امریکا، برطانیہ اور جرمنی میں بھی آڈیو لیکس کے واقعات ہوتے ہیں، ایسے آلات موجود ہیں جن سے یہ سب کرنا آسانی سے ممکن ہے، ہم کسی پر ذمہ داری فکس نہیں کر سکتے جب تک تحقیقات نا ہوں، آڈیو ٹیپ کرنے تصدیق یا تردید نہیں کر رہے ہیں، ہم ریاست کے دشمنوں پر نظر رکھتے ہیں اس حوالے سے عدالت کو چیمبر میں تفصیل بتا سکتے ہیں۔

اس پر وکیل بشری بی بی نے کہا کہ 8 فروری کو تو سب کچھ بند کر دیا گیا تھا، جسٹس بابر ستار نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کھوسہ صاحب 8 فروری کو درمیان میں لے کر مت آئیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل پہلے ہی کہہ رہے ہیں کہ ہم سوموٹو کر رہے ہیں، 8 فروری سے متعلق ہمارے سامنے کچھ نہیں ہے۔بعد ازاں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے نمائندے آصف بشیر چوہدری نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ افراد کو تقویت دینے کے لیے یہ کام کیا جاتا ہے ، قومی سلامتی کے نام پر آڈیو لیک کی جاتی ہے لیکن قومی سلامتی کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، اس بات پر تعجب ہے کہ چیف ایگزیکٹو سے لے کر اوپر تک سب کی آڈیو آتی ہے، آج اداروں کو بتانا چاہیے تھا کہ کون یہ سب کر رہا ہے، عدالت کو چاہیے کہ وہ اس سارے معاملے کو ٹھیک کرے، ٹی وی چینل کو کہا جائے کہ وہ اپنا ایڈیٹوریل بورڈ بنائے اور کسی کی پرائیویٹ گفتگو ریلیز کرنے پر ٹی وی چینلز سے جواب طلب کیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 14 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے دلائل طلب کر لیے۔
Live بشریٰ بی بی سے متعلق تازہ ترین معلومات