خواتین کو با اختیار بنانا کسی بھی ملک کی سماجی ترقی اور خوش حالی کے لئے ناگزیر ہے،خاتون اول بیگم ثمینہ علوی

جمعہ 8 مارچ 2024 17:52

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 مارچ2024ء) خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے کہا ہے کہ خواتین کو با اختیار بنانا کسی بھی ملک کی سماجی ترقی اور خوش حالی کے لئے ناگزیر ہے۔ کسی بھی قوم کے استحکام کو یقینی بنانے میں خواتین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ تعلیم اور معاشی خود مختاری ہی خواتین کی صحیح معنوں میں آزادی اور ترقی کی ضامن ہیں۔

ہمارے مذہب اسلام نے عورتوں کو مکمل حقوق دیے ہیں اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم خواتین کو معاشرے میں ان کا جائز مقام اور تحفظ دلائیں۔ وہ جمعہ کو راولپنڈی وویمن یونیورسٹی میں ایس او ایس فائونڈیشن کے اشتراک سے خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے ’’صنفی مساوات کے زریعے معاشی طور پر بااختیار‘‘کے عنوان سے سمینار سے خطاب کررہی تھیں۔

(جاری ہے)

خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ راولپنڈی ویمن یونیورسٹی نہ صرف ہماری نوجوان خواتین کو تعلیم کی مدد سے بااختیار کر رہی ہے بلکہ انہیں اہم اقتصادی سماجی ایشوز پر آگہی بھی دے رہی ہے، امید ہے کہ سب مل کر اس مقصد کے لیےکام کرتے رہیں گے۔انہوں نےکہا کہ خواتین کا عالمی دن ہمیں اس بات کا موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے اب تک ہمارے ملک میں کیا پیش رفت ہوئی ہے اور ابھی ہمیں مزید کن شعبوں میں کام کرنا ہے۔

انہوں نےکہا کہ ہمیں اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ ہم پاکستان میں خواتین کے حقوق اور پبلک لائف میں ان کی شمولیت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلئے کیا اقدامات لے سکتے ہیں۔انہوں نےکہا کہ اس وقت پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے خواتین کا تناسب تقریباً 50 فیصد ہے لیکن مختلف شعبوں میں خواتین کی شمولیت ابھی بھی کم ہے۔ ہمیں خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے ابھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم کی سال 2023 ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان گلوبل جینڈر گیپ کے اعتبار سے 146 ملکوں میں سے 142 ویں نمبر پر ہے۔ یہ ایک باعثِ تشویش صورتحال ہے۔ انہوں نےکہا کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح خواتین کی شمولیت اور انھیں با اختیار بنانےکے حامی تھے۔ اسی طرح ہمیں اپنی اسلامی تاریخ میں بہت سی خواتین کی مثالیں ملتی ہیں جو ہم سب کے لیے آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

حضرت خدیجہؓ ایک کامیاب کاروباری خاتون تھیں ۔ اس کے علاوہ ، پاکستان کی تاریخ میں ہمیں فاطمہ جناح ، بیگم رعنا لیاقت علی خان ، محترمہ بےنظیر بھٹو سمیت دیگر کامیاب خواتین کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں نے عملی زندگی میں اپنے لیے ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔انہوں نےکہا کہ مختلف شعبوں میں خواتین کی خدمات اس بات کا ثبوت ہیں کہ خواتین بھی محنت اور لگن کے ساتھ کام کرکے ملک کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے خواتین کی ترقی و خوشحالی اور معاشرے میں ان کی شمولیت کیلئے مختلف اقدامات لیے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان نے خواتین کی آنرشپ رائٹس کیلئے پراپرٹی رائٹس ایکٹ بھی پاس کیا ہے ۔ اس ایکٹ کی مدد سے اسلام آباد اور اس کے علاقہ جات میں خواتین کی جائیدادوں کا تحفظ کرنے اور ان پر غیر قانونی قبضہ انتہائی کم وقت میں چھڑوانے میں مدد ملی ہے ۔

اسی طرح ، پاکستان نے کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے خاتمے کیلئےوفاقی محتسب بھی قائم کیا ہے جس سے کام کی جگہ پر خواتین کی شمولیت بڑھانے اور انہیں ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے میں مدد ملی ہے۔ اسی طرح ، خواتین کی معاشی اور مالی خودمختاری میں مدد دینے کیلئے بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا۔ مگر، ان تمام اقدامات کے ساتھ ساتھ ، ہمیں خواتین کو ملک میں ایک محفوظ ماحول فراہم کرنے ، مختلف شعبوں میں ان کی شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کی صحت کے حوالےسے بریسٹ کینسر ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں بہت سی خواتین اس کینسر کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ اگر بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص ہو جائے تو اس بیماری سے بچنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں اس موضوع پر بات کرنے میں ججھک محسوس کی جاتی تھی اور اس بیماری پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی تھی ، مگر اب ہماری آگاہی مہم کی وجہ سے اس مرض کی علامات ، اس کی بروقت تشخیص اور علاج کے بارے میں کھل کر بات کی جارہی ہے ۔

یہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے ۔ اس کے علاوہ ، ہمیں ذہنی صحت کے مسئلے پر بھی کام کرنا ہوگا۔ بہت سی خواتین کو مختلف مسائل کی وجہ سے ذہنی صحت کے ایشوز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے ۔ لوگوں میں نہ صرف اس بارے میں آگاہی کی کمی ہے بلکہ پاکستان میں تربیت یافتہ پروفیشنلز کی بھی شدید کمی ہے ۔

انہوں نےکہا کہ خصوصی افراد ہماری آبادی کا تقریباً 10 سے 12 فیصد حصہ ہیں۔مزید برآں ، خصوصی افراد کو تعلیم تک بھی رسائی نہیں ملتی اور وہ خصوصی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعض خصوصی افراد خود کو معاشرے سے الگ تھلگ محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔تعلیم اور سکلز نہ ہونے کی وجہ سے معذوری کے حامل افراد کو اعلی تعلیم کے حصول اور روزگار میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میں آج اس پلیٹ فارم کی مدد سے تمام معاشرے ، سرکاری اور نجی اداروں اور کاروباری برادری سے اپیل کروں گی کہ وہ خصوصی افراد کی آسانی کیلئے تمام عوامی مقامات اور بازاروں میں محفوظ اور وہیل چیئر کیلئے قابل ِاستعمال ریمپ تعمیر کریں تاکہ وہ روزمرہ کی سرگرمیوں میں شامل ہو سکیں۔ اس موقع پر ایس او ایس فائونڈیشن کی سی ای او شائستہ سہیل نے کہا کہ خاتون اول نے ایوان صدر میں رہتے ہوئے خواتین کو بااختیار بنانے، بریسٹ کینسر، بچوں میں غذائی قلت اور خصوصی افراد کے حقوق کے لئے بہت کام کیا جس پر ہمیں فخر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ملکر مثبت سوچ کو فروغ دینا ہے، خواتین کو با اختیار بنانے کے لئے ہر سطح پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ،ایک خاتون کو اپنے خاندان سے لے کر حکومت کی سطح تک فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہوتا چاہیے،قرآن اور سنت مین بھی خواتین کے حقوق دئے گئے ہیں۔انہوں نےکہا کہ ملک کی مجموعی آبادی 242 ملین ہے جس میں 121 ملین خواتین ہیں ان میں سے 60 ملین پڑھی لکھی ہیں۔

اس شرح کو مزید بڑھانے کے لئے انہوں نے تجویز دی کی خواتین کے لئے لڑیسی بورڈز قائم کیے جائیں تاکہ وہاں پر پڑھی سے رہ جانے والی خواتین کو بنیادی تعلیم دی جائے۔راولپنڈی وویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر انیلہ کمال نے کہا کہ تعلیم کے فروغ اور سماجی ترقی کے لئے خاتون اول کی کاوشوں کے ہم سب معترف ہیں۔انہوں نےکہا کہ 1951 مین قائم ہونے والے کالج سے راولپنڈی وویمن یونیورسٹی بنی، یہاں سے فارغ التحصیل سٹوڈنٹس طالبات نے ملکی سطح پر نام پیدا کیا۔

انہوں نےکہا کہ یونیورسٹی سطح پر خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے یونیورسٹی کے اندر وویمن ڈویلپمنٹ سینٹر، مالی معاونت سمیت بہت سے اقدامات اٹھائے۔ بھی تقریب سے خطاب کیا ۔ تقریب کے اختتام پر خاتون اول بیگم ثمینہ علوی نے مختلف گیمز میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والی طالبات میں مڈلز اور انعامات تقسیم کیے۔