بھارت میں مسلمان نمازیوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات

DW ڈی ڈبلیو بدھ 20 مارچ 2024 17:00

بھارت میں مسلمان نمازیوں پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 مارچ 2024ء) نئی دہلی میں وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ گجرات یونیورسٹی میں بیرونی ممالک کے طلباء پر ہونے والے حملے میں جو افراد بھی ملوث ہیں، ان کے خلاف مقامی حکومت سخت کارروائی کر رہی ہے۔

بھارتی شہریت: متنازعہ قانون کا نفاذ، مسلمانوں کا سخت رد عمل

وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ احمد آباد کی گجرات یونیورسٹی میں "تشدد کا ایک واقعہ پیش آیا اور اس میں دو بیرونی طلباء زخمی بھی ہوئے۔

"

بھارت: یکساں سول کوڈ سے مسلمانوں میں گہری تشویش

ان کا کہنا تھا، "ان میں سے ایک طالب علم کو طبی امداد ملنے کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

" ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت خارجہ اس معاملے پر گجرات کی حکومت سے رابطے میں ہے۔

مودی حکومت مسلمانوں کی املاک مسمار کرنا بند کرے، ایمنسٹی

اطلاعات کے مطابق گجرات یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک سری لنکا کا اور ایک تاجکستان سے تعلق رکھنے والے لڑکے کو حملے کے بعد ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

اس معاملے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔

بھارت: مفتی سلمان ازہری نے ایسا کیا کہا کہ انہیں گرفتار کر لیا گیا؟

گجرات پولیس اور یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی نماز پڑھنے کی وجہ سے ہونے والے اس جھگڑے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی اس میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ حکام نے اس حوالے سے متعدد بیان جاری کیے ہیں اور کہا کہ اس معاملے میں اب تک پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

رام مندر کا افتتاح: بھارتی مسلمان کیا سوچتے ہیں؟

نمازیوں کے ساتھ تشدد کا نیا واقعہ کیا ہے؟

گزشتہ ہفتے احمد آباد میں واقع گجرات یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رمضان کے مہینے میں نماز پڑھنے کے خلاف سخت گیر موقف رکھنے والے ہندوؤں نے آواز اٹھائی اور پھر جب دھمکی سے بھی نماز تراویح بند نہیں کی گئی، تو مسلم طلباء کو مارا پیٹا گیا۔

سینیئر پولیس افسران نے بتایا کہ یہ واقعہ رات کے تقریباً ساڑھے دس بجے پیش آیا، جب گجرات یونیورسٹی کے ہاسٹل میں تقریبا 25 افراد داخل ہوئے۔ "جب یہ گروہ داخل ہوا، تو کچھ طلباء ایک پلیٹ فارم پر (ہاسٹل کے احاطے کے اندر) ہی نماز ادا کر رہے تھے۔ گروپ نے ان سے پوچھا کہ وہ وہاں کیوں نماز پڑھ رہے ہیں اور ان سے کہا کہ وہ کسی مسجد میں جائیں۔

"

بھارت میں پچھلے چھ ماہ میں ڈھائی سو سے زائد نفرت انگیز تقاریر، رپورٹ

پولیس کے مطابق اس کے بعد گروپ کے کچھ لوگ ہاسٹل کے کمروں میں گھس گئے اور املاک کی توڑ پھوڑ کے ساتھ ہی بیرونی طلباءکو مارا پیٹا۔

گجرات میں ہندؤ قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے، جہاں مسلمانوں کے ساتھ تفریقی سلوک ایک عام بات ہے۔ تاہم پولیس نے اب تک یہ نہیں بتایا کہ کس گروپ کے لوگوں نے حملہ کیا، البتہ یہ بات واضح ہے کہ عام طور پر یہ حرکت سخت گیر ہندؤ تنظیم کے کارکن کرتے ہیں، جنہیں حکمراں جماعت کی پشت پناہی حاصل رہتی ہے۔

ایک افغان طالب علم نے بھارتی اخبار 'ہندوستان ٹائمز' کو بتایا کہ حملہ آور "جئے شری رام" کے نعرے لگا رہے تھے اور اندر آتے ہی سکیورٹی گارڈ کو عمارت سے باہر دھکیل دیا۔

"ہمارے کمروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ لیپ ٹاپ اور موبائل فونز سمیت ذاتی ساز سامان کو نقصان پہنچایا گیا۔ پانچ طالب علم، جن میں دو جنوبی افریقہ کے، اور ایک افغانستان نیز ایک ازبکستان اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے، زخمی ہوئے۔

"

ایک دوسرے طالب علم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، "طلباء اپنے کمروں کے باہر نماز پڑھ رہے تھے، کیونکہ کمرے میں جگہ کافی نہیں ہے۔ اور کیمپس میں کوئی مسجد بھی نہیں ہے۔"

نمازیوں پر حملہ، کوئی نئی بات نہیں

چند روز قبل ہی کی بات ہے، جب دارالحکومت دہلی میں ایک پولیس اہلکار کو دیکھا گیا کہ وہ جمعے کی نماز پڑھنے والوں پر زور زور لاتیں مار رہا تھا۔

چونکہ جمعے میں بھیڑ کی وجہ سے کچھ نمازی مسجد کے بارہ روڈ پر نمازی اد کر رہے تھے، اس لیے وردی میں ملبوس پولیس افسر انہیں لات مار مار کر بھگا رہا تھا۔

حکام نے اس واقعے کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس میں ملوث پولیس اہلکار کو فوری طور پر معطل کر دیا تھا اور اس کی تفتیش کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی، خاص طور پر وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسے بہت سے واقعات سامنے آئے، جہاں نمازیوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

دہلی سے متصل گروگرام، جہاں مساجد بہت کم ہیں، مسلمان جمعے کی نماز پارک میں ادا کرتے رہے ہیں، تاہم ہندؤ انتہا پسندوں نے اس پر بھی ہنگامہ آرائی کی اور انہیں بھی بند کروا دیا۔

لکھنو کے ایک معروف مال کے چند ملازم عمارت کے اندر ہی خالی جگہ پر نماز ادا کر رہے تھے، انہیں بھی تشدد نشانہ بنایا گیا تھا، اس حوالے سے متعدد ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جہاں کھلے عام نماز پڑھنے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ ہر روز ہی راستوں اور پارکوں میں ہندؤ برادری کے لوگ پوجا پاٹ کرتے یا پھر مذہبی پروگرام منعقد کرتے نظر آتے ہیں۔