سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دیدی

مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں ‘ ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں ہیں.اٹارنی جنرل کا جواب

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 28 مارچ 2024 13:28

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 مارچ۔2024 ) فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی ہے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کررہا ہے، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی جسٹس عرفان سعادت خان بینچ میں شامل ہیں.

(جاری ہے)

نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے آغاز میں اٹارنی جنرل نے خصوصی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان رہا کیے جانے کا امکان ظاہر کر دیا اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بریت اور کم سزا والوں کو رعایت دے کر رہا کیا جائے گا، مجموعی طور پر 105 ملزمان فوج کی تحویل میں ہیں انہوں نے بتایا کہ ملزمان کی رہائی کے لیے 3 مراحل سے گزرنا ہوگا، پہلا مرحلہ محفوظ شدہ فیصلہ سنایا جانا، دوسرا مرحلہ اس کی توثیق ہوگی، تیسرا مرحلہ کم سزا والوں کو آرمی چیف کی جانب سے رعایت دینا ہوگا.

اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ خصوصی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی اجازت دی جائے، اس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ اگر اجازت دی بھی تو اپیلوں کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جنہیں رہا کرنا ہے ان کے نام بتا دیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک خصوصی عدالتوں سے فیصلے نہیں آجاتے نام نہیں بتا سکتا، جن کی سزا ایک سال ہے انہیں رعایت دے دی جائے گی.

کمرہ عدالت میں موجود بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی بات سن کر مایوسی ہوئی ہے فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر یہ ملزمان عام عدالتوں میں ہوتے تو اب تک باہر آچکے ہوتے، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں چلوانا چاہتے ہیں؟ انسداد دہشت گردی میں تو 14 سال سے کم سزا ہے ہی نہیں. فیصل صدیقی نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت ہوتی تو اب تک ملزمان کی ضمانتیں ہو چکی ہوتیں، ان مقدمات میں تو کوئی شواہد ہے ہی نہیں جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ایف آئی آر میں کیا دفعات لگائی گئیں ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور انسداد دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں ہیں.

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ پھر ہم ان ملزمان کو ضمانتیں کیوں نہ دے دیں؟ ہم ان ملزمان کی سزائیں کیوں نہ معطل کردیں؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ سزا معطل کرنے کے لیے پہلے سزا سنانی ہوگی، ضمانت تب دی جاسکتی ہے جب عدالت کہے کہ قانون لاگو نہیں ہو سکتا دریں اثنا سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ شدہ فیصلے سنانے کی مشروط اجازت دے دی. عدالت نے ریمارکس دیے کہ صرف ان کیسز کے فیصلے سنائے جائیں جن میں نامزد افراد عید سے پہلے رہا ہوسکتے ہیں اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ کم سزا والوں کو قانونی رعایتیں دی جائیں گی فیصلے سنانے کی اجازت اپیلوں پر حتمی فیصلے سے مشروط ہوگی عدالت نے اٹارنی جنرل کو عملدرآمد رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانے کی ہدایت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مزید سماعت اپریل کے چوتھے ہفتے میں ہوگی فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسا نہ ہو رہائی کے بعد ایم پی او کے تحت گرفتاری ہوجائے.

علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے حکومت خیبرپختونخوا کی فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا منظور کرلی، گزشتہ سماعت کے دوران حکومت خیبرپختونخوا نے سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کےخلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کی تھی.