عدالتی اصلاحات کیلئے اکیڈیمیا، بارز اور عدلیہ کو مل کر کام کرنا ہوگا، مقررین

جمعرات 28 مارچ 2024 20:33

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 28 مارچ2024ء) معروف قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کے لئے عدالتی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیںجس کے لیے اکیڈیمیا، بارز اور عدلیہ کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی لاء کالج اورانسٹیٹیوٹ فار لیگل ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی کے زیر اہتمام ’پاکستان میں انصاف تک رسائی اور ثالثی کا کردار- ‘ پرگول میز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

اس موقع پر پر نسپل پنجاب یونیورسٹی لاء کالج پروفیسر ڈاکٹر شازیہ قریشی، نائب چیئرمین پنجاب بار کونسل کامران بشیر مغل ، چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرانسٹیٹیوٹ فار لیگل ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی سید شہباز بخاری، چیئرمین بورڈ آف ایڈوائزری انسٹیٹیوٹ فار لیگل ریسرچ اینڈ ایڈووکیسی ظفر اقبال کلانوری ، ایسوسی ایٹ پروفیسرڈاکٹر نعیم اللہ خان اور طلبائو طالبات نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اپنے خطاب میں معروف قانون دان ظفر اقبال کلانوری نے کہا کہ ہمارا عدالتی نظام کاغذی ثبوتوں پر چلتا ہے جبکہ دنیا بھر میں تنازعات کو کورٹ سے باہر حل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی نظام موجود ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہرصوبے کی عدالت میں قانون کی تشریح میں فرق ہوتا ہے جس سے تنازعات جنم لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا پاکستان میںوٹہ سٹہ کی شادی، جہیز، زر، زن اور زمین کے جھگڑے ہیں جن کے حل میں ثالثی کا نظام کردار ادا کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر عدالتی نظام میں اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان کی عدالتوں میں کیسز نمٹانے میں 320سال لگ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور دیگر ممالک میں جتنے بڑے وکلا ء ہیں ان سب کا تعلق پنجاب یونیورسٹی سے ہے ۔ کامران بشیر مغل نے کہا کہ بار کونسلز کو تعلیمی اداروں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قوانین موجود ہیں لیکن مسئلہ عملداری کا ہے جس کے لئے بار کونسلز اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ کئی قوانین میں ترامیم ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام بار کونسلز کے گرد گھومتا ہے ۔سید شہباز بخاری نے کہا کہ پاکستان میں فیملی لاء موجود ہیں لیکن درست طریقے سے عمل نہ ہونے کے باعث طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں لاکھوں کمپنیاں موجود ہیں لیکن قانون کے مطابق لیگل ایڈوائزر نہیں رکھتی،اگریہ کمپنیاں لیگل ایڈوائزر رکھیں تو وکلاء کے لئے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ ایک ایک جج کے پاس تقریباً150کیسز کی کاز لسٹ ہوتی ہے جبکہ دیگر ممالک میں جج کی کاز لسٹ میںدو یا تین کیس ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں زیر التوا کیسز کے تدارک کیلئے ثالثی کے نظام کو اصلاحات کرکے رائج کرنا ہوگا۔ انہوں نے کانفرنس کے لئے تعاون پر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر شازیہ قریشی نے شرکاء کو خوش آمدیدکیا اور کہا کہ تعلیمی اورقانونی ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پرقانونی بحث کے لئے اکٹھا کرنے پر منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسی سرگرمیوں سے طلباء کے ساتھ ہمیں بھی سیکھنے کو ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی اکیڈیمیا اور کورٹس کے درمیان روابط کو فروغ ملنا چاہئے۔ ڈاکٹر نعیم اللہ خان نے کہا کہ آئین سے پہلے لوگ آپس میں معاملات کو طے کر لیا کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ثالثی کے نظام کیلئے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کے عدالتی نظام میں مداخلت پر بار کونسلز نے کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ کمرشل اور گھریلوں جھگڑوں سے معیشت کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔