نسل کشی کے الزامات، ’جرمنی کٹہرے میں‘

DW ڈی ڈبلیو پیر 8 اپریل 2024 15:20

نسل کشی کے الزامات، ’جرمنی کٹہرے میں‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 اپریل 2024ء) بتایا گیا ہے کہ دی ہیگ میں عالمی عدالت انصاف جلد ہی اس کیس کی سماعت شروع کر دے گی۔ اس کیس کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔

جرمنی اور اسرائیل سمیت مجموعی طور پر 150 سے زائد ممالک نے اس کنونشن کی توثیق کر رکھی ہے۔ وسطی امریکہ کا چھوٹا سا ملک نکارا گوا بھی اس کنونشن میں شامل ہے۔

قانونی طور پر اس کنونشن کو تسلیم کرنے والا ہر ملک کسی دوسرے رکن ملک پر اس کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرنے کا حق رکھتا ہے۔

نکاراگوا نے یہی حق استعمال کرتے ہوئے یکم مارچ کو دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں جرمنی کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔

درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ جرمنی ہتھیاروں کی فراہمی سمیت اسرائیل کی مسلسل حمایت کی وجہ سے فلسطینی عوام کے خلاف ہونے والی مبینہ نسل کشی کو روکنے کی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس طرح اس نے اس کنونشن اور بین الاقوامی قوانین کے دیگر شقوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

(جاری ہے)

عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ آئی سی جے جرمنی کے خلاف 'عارضی اقدامات‘ کرے، جس میں اسرائیل کے لیے اس کی حمایت، خاص طور پر فوجی امداد کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔

جرمنی تعاون کے لیے تیار

اسرائیل کے قریبی اتحادی ملک جرمنی نے کہا ہے کہ وہ آئی سی جے کے ساتھ مکمل تعاون کرے گا۔ جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان کرسٹیان واگنر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ برلن حکومت آئی سی جے کی قدر کرتی ہے اور اس کیس میں وہ اپنا دفاع کرے گی۔

واضح رہے کہ سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے اسرائیلی سرزمین پر حملہ کیا گیا تھا، جس میں اسرائیلی حکومت کے مطابق کم ازکم بارہ سو افراد ہلاک کر دیے گئے تھے، جن میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو شہری شامل تھے۔ ساتھ ہی یہ عسکری گروہ سینکڑوں افراد کو یرغمال بنا کر غزہ پٹی لے گیا تھا۔

اس کے جواب میں اسرائیلی دفاع افواج نے غزہ پٹی میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا عمل شروع کیا تھا۔

اب اس کارروائی کو چھ ماہ کا وقت بیت چکا ہے اور غزہ میں حماس کے طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد بتیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران شہری ہلاکتوں کی وجہ سے اب تو امریکہ نے بھی تشویش کا اظہار کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے اسرائیل پر الزامات عائد کیے ہیں کہ وہ وہ حماس جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کے دوران شہریوں پر بھی حملے کر رہا ہے۔

تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس درصل شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

اس مقدمے میں کتنا وزن ہے؟

آیا اسرائیل 'نسل کشی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے؟ یہ ایک قانونی رائے ہے۔ جنوری میں آئی سی جے نے جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر کردہ ایک کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کی کارروائیوں سے باز رہنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے۔

نکارا گوا کا کیس دراصل جنوبی افریقہ کے اسی کیس پر انحصار کر رہا ہے۔ تاہم قانونی ماہرین کا کہنا ہے یہ کیس کچھ زیادہ وزن نہیں رکھتا۔

ٹرنٹی کالج ڈبلن سے وابستہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کے پروفیسر مائیکل بیکر کے بقول اس کیس میں ابہام پایا جاتا ہے جبکہ میرٹ پر دیکھا جائے تو اس میں سنجیدہ قسم کے مسائل بھی ہیں۔ ان کے مطابق کورٹ میں یہ کیس ثابت کرنا آسان نہ ہو گا۔

جرمنی اسرائیل کے مضبوط ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے. تنازعات پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کے مطابق 2019 ء سے 2023 ء کے درمیان امریکہ کے بعد جرمنی اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا۔

ولیم نوآ گلوگرافٹ (ع ب / ک م )