ہجرت کا معاہدہ: یورپی یونین کی سیاسی پناہ کی پالیسی کیا کہتی ہے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 11 اپریل 2024 19:00

ہجرت کا معاہدہ: یورپی یونین کی سیاسی پناہ کی پالیسی کیا کہتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اپریل 2024ء) برسوں کے تنازعات کے بعد، ہجرت کے نئے معاہدے کا مقصد یورپی یونین کے سیاسی پناہ کے قانون میں اصلاحات اور ریاستوں پر بوجھ کو کم کرنا ہے۔

یورپی یونین کے 27 رکن ممالک گزشتہ آٹھ سالوں سے سیاسی پناہ کے قوانین کے بارے میں مذاکرات جاری رکھے ہوئے تھے۔ آخر کار دس اپریل بروز بُدھ یورپی پارلیمان نے یورپی یونین میں سیاسی پناہ کے طریقہ کار میں بنیادی اصلاحات کا فیصلہ کر لیا ۔

''ہجرت کا معاہدہ‘‘ کہلانے والا یہ مسودہ آٹھ قوانین پر مشتمل ہے۔

بنیادی طور پر یورپی یونین میں غیرقانونی طریقے سے داخل ہونے والوں کی تعداد کو کم کرنا، سیاسی پناہ کے عمل کو تیز کرنا اور سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو بیرونی سرحدوں پر منتقل کرنا وغیرہ شامل ہے۔

(جاری ہے)

یورپی یونین کے شماریات کے ادارے یوروسٹیٹ کے مطابق گزشتہ برس پناہ کی درخواستوں کی تعداد 1.14 ملین تھی۔

اس تعداد میں گزشتہ چار سالوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، 2022 ء سے یوکرین کے تقریباً چالیس لاکھ پناہ گزینوں کو یورپی یونین میں جگہ دی گئی ہے۔

بیرونی سرحدوں پر سیاسی پناہ کی درخواستوں سے نمٹنے کا عمل

اس تازہ قانون کے مطابق خشکی، سمندر یا ہوائی راستے سے یورپی یونین پہنچنے پر پناہ کے متلاشیوں اور پناہ گزینوں کو سات دن کے اندر واضح طور پر شناخت اور توسیع شدہ بائیو میٹرک ''یوروڈاک‘‘ فائل میں رجسٹر کیا جانا ہے۔

20 فیصد سے کم شناخت کی شرح والے ممالک کے تارکین وطن کو بارہ ہفتوں تک سرحد پر ان کیمپوں میں جو یونان، اٹلی، مالٹا، اسپین، کروشیا اور قبرص میں لگائے جانے کو لازمی قرار دیا گیا ہے، میں رکھا جائے گا۔ اس دوران یہ طے کیا جائے گا کہ کس کس کو بغیر کسی جانچ کے اُس کے آبائی ملک واپس بھیجا جا سکتا ہے۔ قانون کی اس شق سے یورپی یونین کی طرف آنے والے پناہ کے متلاشیوں کی ایک اقلیت متاثر ہوگی ۔

پورے یورپی یونین میں مذکورہ کیمپوں کی گنجائش 30,000 ہونی چاہیے۔

زیادہ شناخت کی شرح والے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن پر پناہ کے متلاشی افراد کے عام طریقہ کار کا اطلاق ہو گا۔ اس طرح سیاسی پناہ کی درخواستوں سے نمٹنے کے عمل میں جو اب تک برسوں لگ جاتے تھے، آئندہ کم وقت لگا کرے گا۔ علاوہ ازیں مسترد شدہ پناہ کے متلاشیوں کو براہ راست بیرونی سرحدوں سے یورپ بدر کر دیا جائے گا۔

بیرونی سرحدوں پر ابتدائی استقبالیہ ریاستوں کے لیے راحت

پناہ کے متلاشی افراد جس یورپی ملک میں داخل ہو کر اپنی درخواست جمع کراتے ہیں اُسے ''ابتدائی استقبالیہ ریاست‘‘ کہا جاتا ہے۔ نئے ضوابط کے تحت ابتدائی استقبالیہ ریاستوں کو کچھ تسلیم شدہ پناہ کے متلاشیوں یا تارکین وطن کو یورپی یونین کے ان دیگر رکن ممالک کی طرف منتقل کیا جا سکے گا، جہاں انہیں پناہ ملنے کے بہتر امکانات میسر ہوں۔

تازہ ضوابط کے مطابق تمام رکن ممالک کے درمیان '' لازمی یکجہتی‘‘ پر زور دیا گیا ہے۔ ہنگری جیسی ریاستیں جو تارکین وطن کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں، انہیں تو معاوضہ ادا کرنا ہو گا یا ابتدائی استقبالیہ ریاستوں میں سامان اور عملہ بھیجنا پڑے گا۔

تازہ ضوابط میں تاہم کچھ چھوٹ بھی رکھی گئی، یوں اگر کوئی ملک تارکین وطن کے حوالے سے زیادہ بوجھ محسوس کرتا ہے، تو وہ کئی ضوابط میں نرمی بھی کر سکتا ہے اور یورپی یونین کی دیگر ممبر ریاستوں سے مزید یکجہتی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

تمام 27 ریاستیں مل کر فیصلہ کریں گی کہ کن واقعات کو اور کب ''بحرانی واقعہ‘‘ قرار دینا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو نیا قانوں بہت سے سیاسی تنازعات کی گنجائش رکھتا ہے۔

پناہ گزینوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کو ریلیف کیسے دیا جائے؟

بہت سے سیاسی پناہ کے متلاشی اب تک یونان یا اٹلی سے براہ راست جرمنی ، آسٹریا، فرانس، ہالینڈ یا بیلجیم منتقل ہو چکے ہیں۔

اس کا اطلاق مسترد شدہ پناہ کے متلاشیوں پر بھی ہوتا ہے۔ اب تک کے قوانین کے مطابق پناہ کی درخواست حاصل کرنے والا پہلا ملک (جیسے اٹلی) دراصل ان تارکین وطن کو واپس اپنے ہاں لے جانے کا پابند ہوتا ہے۔ تاہم عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ نیا ہجرت معاہدہ اب دوبارہ ان قوانین پر نظر ثانی کر رہا ہے۔ داخلی نقل مکانی کے لیے ترغیبات کو یورپی یونین میں یکساں خدمات اور یورپی یونین میں استقبالیہ کے شرائط کے زریعے کمزور بنایا جائے گا۔

کیا مسترد شدہ پناہ کے متلاشیوں کی ملک بدری آسان ہو جائے گی؟

اس معاہدے کے تحت مستقبل میں محفوظ قرار دیے گئے آبائی یا ٹرانڑٹ ملک سے آئے ہوئے پناہ کے متلاشیوں کو زیادہ تیزی سے ملک بدر کیا جا سکے گا۔ اس مقصد کے لیے یورپی یونین تیسرے ممالک کے ساتھ مزید معاہدوں کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ مسترد شدہ تارکین وطن کو قبول کریں۔

مثال کے طور پر تیونس جس نے حالیہ معاہدے کے تحت اقتصادی امداد کے بدلے اپنے ہی شہریوں کو واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

تاہم تیونس کی حکومت ذیلی صحارا افریقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو جو تیونس کے راستے یورپی یونین میں ہجرت کر چکے ہیں، کو واپس ملک میں آنے کی اجازت نہیں دینا چاہتی۔ 2016 ء میں ترکی کے ساتھ ایک معاہدے کے نتیجے میں چار سال تک کم شامی مہاجرین یونان پہنچے۔

تاہم، یہ معاہدہ اب لاگو نہیں ہوگا کیونکہ ترکی اب شامی باشندوں کو یونان سے واپس نہیں لے رہا ہے۔

پناہ کی درخواستوں کو کیسے وہکا جائے؟

مستقبل میں، یورپی یونین کے سرحدی محافظ ملک میں داخل ہونے والے تمام لوگوں کا مکمل ریکارڈ جمع کر سکیں گے اور ان کا بائیو میٹرک ڈیٹا ایک توسیع شدہ فائل میں محفوظ کر سکیں گے جسے یورپ کے تمام حکام استعمال کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر اس کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ آیا یونان میں مسترد ہونے والا تارک وطن آسٹریا میں دوبارہ پناہ کے لیے درخواست دیتا ہے یا کسی دوسرے ملک کا رُخ کرتا ہےتو اس تارک وطن کو زیادہ آسانی سے ابتدائی داخلے کے ملک اور بالآخر اس کے اصل ملک میں ڈی پورٹ کیا جا سکے گا۔ 2015ء سے رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کی کئی کوششیں کی گئیں۔ سابقہ ​​یوروڈاک ڈیٹا بیس، جس میں صرف فنگر پرنٹس کو محفوظ کیا گیا تھا، میں متعدد جھول اور تکنیکی خامیاں تھیں۔

ہجرت کا معاہدہ کیوں ہنوز متنازعہ؟

معاہدے کے حامیوں کا استدلال ہے کہ سخت قوانین اور طریقہ کار جو تیزی سے یورپ بدری کا موجب ہوں، اس سلسلے میں طویل مدتی روک تھام کے لیے مؤثر ہوں گے۔ رائے یہ ہے کہ یوں ترک سکونت کی حوصلہ شکتی ہو گی۔

تاہم معاہدے کے ناقدین شکایت کرتے ہیں کہ یورپی یونین میں اس سے سیاسی پناہ کا حق مجروح کیا جائے گا اور جن لوگوں کو واقعی تحفظ کی ضرورت ہے انہیں مستقبل میں قبول کرنے کی بجائے ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیاجائے گا۔

آئندہ کیا ہوگا؟

یورپی کونسل، یعنی 27 رکن ممالک کی نمائندہ کونسل، اپریل کے آخر میں اس معاہدے پر دوبارہ اپنی رضامندی ظاہر کرے گی جسے ایک رسمی عمل سمجھا جاتا ہے۔ جب ہجرت کے معاہدے کے مختلف قوانین اور ضوابط قانونی طور پر پابند ہو جائیں گے تو سب سے اہم بات یہ ہو گی کہ رکن ممالک اپنی نئی ذمہ داریوں کو کیسے پورا کرتے ہیں۔ کیا اٹلی بند سرحدی کیمپ قائم کرے گا؟ کیا شمالی اور مشرقی رکن ممالک واقعی یکجہتی کا مظاہرہ کریں گے اور مہاجرین کو قبول کریں گے یا کم از کم مالی امداد کریں گے؟

نئے قوانین کے نفاذ میں دو سال لگیں گے۔ لہذا یہ صرف چند سالوں میں واضح ہو جائے گا کہ آیا پناہ کے متلاشیوں کی تعداد میں کمی واقع ہو رہی ہے؟

(برنڈ ریگرٹ) ک م/ ع ت