ترکی: کیبل کار حادثے میں پھنسے تمام سیاحوں کو بچا لیا گیا

DW ڈی ڈبلیو اتوار 14 اپریل 2024 15:20

ترکی: کیبل کار حادثے میں پھنسے تمام سیاحوں کو بچا لیا گیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 اپریل 2024ء) ترکی کے معروف سیاحتی شہر انطالیہ کے قریب ایک کیبل کار کو پیش آنے والے حادثے کے بعد سے پھنسے ہوئے 174 سیاحوں کو بچا لیا گیا۔ ہفتے کے روز بحیرہ روم کے ساحل پر واقع اس شہر کے باہر واقع تونک تپےکے مقام پر کیبل کار کے اس حادثے میں ایک شخص ہلاک ہو گیا تھا۔

ترک خبر رساں ایجنسی انادولو نے مرنے والے کی شناخت 57 سالہ ترک شہری کے طور پر کی ہے۔

اس علاقے میں اپنی نوعیت کے اس اولین واقعے میں چھ ترک اور ایک کرغیز شہری زخمی ہوئے بھی ہوئے، جن میں دو بچے بھی شامل ہیں۔

حادثے کا شکار ہونے والے افراد عید الفطر کی چھٹیاں منانے کے سلسلے میں اس سیاحتی مقام پر اکٹھے ہوئے تھے۔

حادثہ کیسے پیش آیا؟

انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق یہ واقعہ کیبل کار کے لیے لگائے گئے ایک پول کے گرنے کے بعد پیش آیا۔

(جاری ہے)

کیبل کار کا ایک ڈبہ اس گرے ہوئے پول سے ٹکرانے کے بعد کھل گیا، جس سے اس میں سوار سیاح نیچے پہاڑوں میں گر گئے۔

باقی مسافر اس وقت تک دوسرے کیبل کار کے ڈبوں میں پھنسے رہے جب تک کہ انہیں بچا نہ لیا گیا۔ بعض لوگوں کو حادثے کے ایک دن بعد ریسکیو کیا جا سکا۔

حادثے میں بچ جانے والے ایک سیاح نے انادولو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''رات بہت خوفناک تھی، ہم بہت خوفزدہ تھے۔

ہمارے ساتھ بچے بھی تھے۔ سات گھنٹے تک وہاں رہنا ایک اذیت تھی۔ ہم ہر سیکنڈ ہوا میں ڈول رہے تھے، مسلسل خوف میں، یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہم اس صدمے پر کیسے قابو پائیں گے۔‘‘

تفتیش جاری ہے

اس واقعے کے فوری بعد وسیع پیمانے پر ایک ہنگامی ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا، جس میں چھ سو سے زائد امدادی کارکنوں اور دس ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا۔

اس میں ترکی کے سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی اے ایف اے ڈی کی ٹیموں کے ساتھ ساتھ کوسٹ گارڈ، فائر بریگیڈ اور ترکی کے مختلف حصوں سے کوہ پیمائی کی ٹیمیں شامل تھیں۔ واقعے کی تحقیقات اب جاری ہیں۔

وزیر انصاف تونج یلماز نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس نے واقعے کے سلسلے میں 13 افراد کو حراست میں لیا، جن میں کیبل کار چلانے والی نجی کمپنی کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ تونک تپے کیبل کار 2017 میں تعمیر کی گئی تھی اور یہ فی گھنٹہ 1,200 لوگوں کو سفر پر لے جا سکتی ہے۔

ش ر/ا ب ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)