لاہورہائیکورٹ نے لڑکے اور لڑکی دونوں کیلئے شادی کی کم از کم عمر18 سال مقررکردی

پیر 15 اپریل 2024 19:12

لاہورہائیکورٹ نے لڑکے اور لڑکی دونوں کیلئے شادی کی کم از کم عمر18 سال ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 اپریل2024ء) لاہور ہائیکورٹ نے لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے شادی کی کم از کم عمر اٹھارہ سال مقرر کرتے ہوئے شادی کی عمر میں فرق کی شق کو کالعدم قرار دے دیا،عدالت نے 95 برس پرانے قانون میں ترمیم کا حکم دیدیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ1929 ء کے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے قانون میں15 روز میں تصحیح اور اپ ڈیٹ کرکے قانون پنجاب حکومت کی ویب سائٹ پر بھی شائع کیا جائے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلے میں قرار دیا کہ سماجی اور جسمانی عوامل کی بنیاد پر چائلڈ میرج کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،شادی کے قانون کا مقصد سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی عوامل کے ساتھ جڑنا چاہیے ،بحیثیت قوم آبادی کے آد ھے حصے کی صلاحیتوں کو کم عمری کی شادی اور بچوں کی پیدائش میں گنوایا نہیں جا سکتا ،آئین کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں ،کسی بھی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا ہے،چائلڈ میرج ایکٹ 1929 ء میں لڑکے لڑکی کی عمر میں فرق امتیازی سلوک ہے،عمر کے اس فرق کو غیر آئینی اور کالعدم قرار دیا جاتا ہے،خواتین کے لئے مساوی مواقع کا مطلب ہے کہ ان کی شادی کیلئے عمر کی حد بھی مردوں کے برابر مقرر کی جائے،آئین کے آرٹیکل 35 کے تحت ریاست شادی،خاندان،ماں اور بچے کے تحفظ کی ذمہ دار ہے،آئین کے اس آرٹیکل میں بالخصوص ماں کا ذکر کیا گیا ہے،باپ کا نہیں جو اہمیت کا حامل ہے،اس پر عمل نہ کرنا سنگین امتیازی سلوک اور آئینی سکیم پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے،آرٹیکل 25 کے تحت تمام شہری قانون کی نظر میں برابر اور تحفظ کے حق دار ہیں، جنس کی بنیاد پر کسی بھی شہری کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا،درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے قانون میں لڑکی کی شادی کی عمر16 برس اور لڑکے کی شادی کی کم از کم عمر18 سال مقرر ہے جو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور آئین میں درج مساوات کے حق کی نفی ہے،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق کم عمری کی شادیاں بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، پاکستان میں کئی بچے چائلڈ میرج کا شکار ہیں اور یہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

(جاری ہے)

چائلڈ میرج سے لڑکیاں نہ صرف تعلیم سے محروم ہوجاتی ہیں بلکہ وہ کئی صحت کے مسائل سے بھی دوچار ہو جاتی ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے یونیسیف اور دیگر اداروں کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 21 فیصد لڑکیوں کی18 برس کی عمر سے قبل شادی کر دی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں 3 فیصد لڑکیوں کی 15 سال عمر ہونے سے پہلے ہی شادی کر دی جاتی ہے۔کم عمری کی شادی غربت اور نسل در نسل غدائیت کی کمی کو برقرار رکھتی ہے۔