نیشنلائزیشن سمیت کئی منفی اقدامات سے ہم صنعتی ترقی میں پیچھے رہ گئے ،افتخار علی ملک

پیر 15 اپریل 2024 21:24

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 اپریل2024ء) یونائٹیڈ بزنس گروپ(یو بی جی) کے بانی چیئرمین ،سارک چیمبر آف کامرس اور ایف پی سی سی آئی کے سابق صدر،ایشین بزنس ٹائیگرافتخار علی ملک نے یونائیٹڈ بزنس گروپ کی قیادت کی جانب سے اپنی کاوشوں کے حوالے سے دیئے گئے بیان کو سراہتے ہوئے کہا کہ ملکی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کی جانے والی کوششوںمیں پاکستان کی تمام بزنس کمیونٹی کا اہم کردارانتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

افتخار علی ملک نے سازگار پالیسیوں کی وکالت کرنے، تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے اور بین الاقوامی تجارت کو آسان بنانے کے لیے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعاون کو فروغ دینے میں یو بی جی کے فعال موقف کو تسلیم کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ کاروباری ماحول کو بڑھانے اور کاروباری برادری کے مفادات کی نمائندگی کرنے کے لیے جو لگن اور عزم کی ضرورت تھی،میری ہمیشہ یہی کوششیں رہیں کہ ڈبلیو ٹی او، سارک چیمبر آف کامرس، امریکن چیمبر آف کامرس، اسلامک چیمبر آف کامرس، ڈی 8 ، ای سی او، اوورسیز چیمبر آف کامرس، اور پاکستان بزنس کونسل جیسی تنظیموں کے متعین کردہ مشترکہ اہداف کی جانب پیش رفت میں اپنا کردار ادا کروں اور میری کاوشوں اور کوششوں کو مذکورہ تمام عالمی پلیٹ فارم پر سراہا گیا ہے۔

افتخار علی ملک نے کہا کہ نیشنلائزیشن اوراسی طرح کے کئی اقدامات کی وجہ سے ہم صنعتی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں،ڈالر کی وقعت میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے،جو صنعتیں 5روپے فی ڈالر میں لگیں وہ تو لگ چکی ہیں لیکن اب278روپے کے ڈالر پر صنعت کون لگائے اور کون چلائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں کئی خاندان ایسے ہیں جنہوں نے انڈسٹری بند کرکے دیگر کام شروع کردیئے ہیں،درحقیقت یہ معاملات ملکی قیادت کیلئے لمحہ فکریہ ہیں،ہمیں قومی سطح پر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور نبھانا ہوگا،آج پاکستان کے حالات بے حد مہنگائی،غربت اور بیروزگاری کی عکاسی کررہے ہیں۔

افتخار علی ملک نے کہا کہ مجھے دکھ یہ ہوتا ہے کہ ایک ااٹامک پاورملک کو اکنامک پاور بننا تھا مگر ایسا نہ ہوسکا،جاپان،چین،جرمنی ہی نہیں بلکہ اب تو ویتنام، ایتھوپیا ، بنگلہ دیش جیسے ملک بھی ہم سے آگے نکل رہے ہیں،ملکی صنعتکاروں پر ٹیکسز کے دبائو سے نہ صرف صنعتیں لگنا بند ہوئیں بلکہ صنعت سازی کی حوصلہ شکنی ہوئی۔انہوں نے کہا کہ میں اپنے وسیع تر تجربات کی روشنی میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے پاس ابھی بھی مواقع موجود ہیں اور ہماری حکومت کو زرعی شعبہ کو فروغ دینے کیلئے کمر کس لینی چاہیئے، ہمیں اپنے 200 سال پرانے روایتی طریقوں کو خیرباد کہنا ہوگا،چین سے سستی زرعی مشینری لانا ہوگی،کسانوں کو سہولیات فراہم کرنا ہونگی اور نئے طریقوں سے کسان کو کھیتی باڑی کیلئے تیار کرنا ہوگا۔

#