بارشوں کا 75 سالہ ریکارڈ ٹوٹ جانے کے باوجود صرف 24 گھنٹوں میں متحدہ عرب امارات کے متاثرہ علاقے کلیئر ہو گئے

طوفانی بارشوں کا سلسلہ تھمنے کے بعد ایک دن کے ہی اندر دبئی سمیت تمام بارش سے متاثرہ علاقوں کی شاہراہیں مکمل طور پر کلیئر قرار دے دی گئیں

muhammad ali محمد علی جمعہ 19 اپریل 2024 23:06

بارشوں کا 75 سالہ ریکارڈ ٹوٹ جانے کے باوجود صرف 24 گھنٹوں میں متحدہ عرب ..
دبئی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 19 اپریل 2024ء ) بارشوں کا 75 سالہ ریکارڈ ٹوٹ جانے کے باوجود صرف 24 گھنٹوں میں متحدہ عرب امارات کے متاثرہ علاقے کلیئر ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کو 2 روز قبل 75 سالوں کے دوران سب سے زیادہ اور طوفانی بارشوں کا سامنا کرنا پڑا۔ طوفانی بارشوں کے باعث متحدہ عرب امارات بھر میں شدید سیلابی صورتحال پیدا ہوئی اور نظام زندگی درہم برہم ہو گیا۔

طوفانی اور ریکارڈ توڑ بارشوں کے بعد ائیرپورٹس پر فلائٹ آپریشن معطل ہوئے، پبلک ٹرانسپورٹ سروس بند ہوئی، جبکہ شاہراہیں بھی ٹریفک کیلئے بند ہو گئیں۔ تاہم طوفانی بارشوں کا سلسلہ تھمنے کے بعد ایک دن کے ہی اندر دبئی سمیت تمام بارش سے متاثرہ علاقوں کی شاہراہیں مکمل طور پر کلیئر قرار دے دی گئیں، ائیرپورٹس پر فلائٹ آپریشن بحال کر دیا گیا، ماس ٹرانزٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ سروسز بھی بحال کر دی گئیں۔

(جاری ہے)

خلیجی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق طوفانی اور ریکارڈ توڑ بارشوں کا سلسلہ تھمنے کے صرف 24 گھنٹوں کے اندر ہی بارش سے متاثرہ علاقوں کو کلیئر کر کے نظام زندگی بحال کر دیا گیا۔ تاہم طوفانی بارشوں کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال سے کچھ مسائل اب بھی برقرار ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں شدید بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال میں بعض ہوٹلوں نے کمروں کے کرایوں میں ہوشربا اضافہ کردیا۔

خلیج ٹائمز کے مطابق متحدہ عرب امارات ریکارڈ بارش کے بعد دبئی بھر میں ریسکیو، نکاسی آب اور صفائی کا عمل جاری ہے، اس دوران جن رہائشیوں کے گھر سیلاب سے متاثر ہوئے انہیں ہوٹلوں میں منتقل ہونا پڑا، تاہم دبئی کے سیاحوں اور کچھ رہائشیوں کو اب رہائش کے لیے معمول سے کہیں زیادہ ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے کیوں کہ کچھ ہوٹلوں نے کمروں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

امارات کی ایک سابقہ رہائشی 41 سالہ مونا آئرلینڈ نے کہا کہ سچ کہوں تو یہ ایک خوفناک صورتحال ہے، میں دبئی سے محبت کرتی ہوں اور ہر وقت یہاں آتی ہوں لیکن میں سمجھتی ہوں کہ کاروباری اداروں کے لیے لوگوں کی مشکلات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنا غیر اخلاقی ہے اور یہ کسی بڑے شہر کو برا نام دیتا ہے، میں اپنے قیام کو بڑھانے کے بارے میں سوچ رہی تھی اور طوفان سے پہلے اپنے ہوٹل سے چیک کیا، مجھے بتایا گیا وہاں کافی مقدار میں کمروں کی دستیابی ہے، اس لیے قیام میں توسیع کو کوئی مسئلہ نہیں، چیک آؤٹ سے ایک دن پہلے میں نے استقبالیہ سے بات کی تو انہوں نے کہا سیلاب کی وجہ سے ہوٹل اب مکمل طور پر بک ہے، شہر بھر کے متعدد ہوٹلوں کو کال کرنے کے بعد مجھے معیاری ہوٹل کے کمروں کے لیے ایک رات کا کرایہ 1 ہزار سے 8 ہزار درہم ( تقریباً 6 لاکھ 8 ہزار 882 پاکستانی روپے) تک کرائے بتائے گئے جو عام طور پر تقریباً 345 درہم فی رات میں دستیاب ہوتے تھے۔

اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے برطانیہ سے دبئی میں چھٹیاں گزارنے والے 35 سالہ ایلکس جیکسن اور اس کے دوست نے کہا کہ شہر میں کوئی خاندان نہیں ہے اور ہوٹل کی آسمان کو چھوتی قیمتیں زیادہ دیر تک برداشت کرنے سے قاصر ہیں، ہم اس وقت تک کہیں لابی میں ہی سونے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جب تک کہ ہم دبئی سے واپس اپنے ملک کے لیے نہ نکل جائیں جب کہ حکام نے کہا ہے ابھی فل الحال ہوائی اڈے کا سفر کرنے سے گریز کریں جب تک کہ ایئر لائنز کی طرف سے پروازوں کی تصدیق نہ ہو جائے کیوں کہ ہوائی اڈہ کھلے رہنے کے باوجود محدود تعداد میں پروازیں چلائی جا رہی ہیں۔

اس معاملے پر جب شہر بھر کے ہوٹلوں اور ہولڈنگ گروپس سے رابطہ کیا گیا تو اکثریت نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا، تاہم اس دوران ایک ہوٹل کے عملے کے ایک فرد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کچھ بات کی اور کہا کہ ہم جانتے ہیں ہر کوئی تکلیف میں ہے، تاہم شہر کے تمام ہی ہوٹلوں نے قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے اس لیے ہمیں اس کی پیروی کرنی چاہیئے۔