Live Updates

بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلیں ،یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا، عدالت

سائفر اصل میں ہے کیا چیز چیف جسٹس ہائی کورٹ ……… سائفر ٹیلی گرام ایک سیکریٹ دستاویز ہے جسے بعد میں ڈی کوڈ کیا گیا، پراسیکیوٹر

پیر 22 اپریل 2024 19:15

بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی اپیلیں ،یہ فوجداری مقدمہ ہے، ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اپریل2024ء) اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ یہ فوجداری مقدمہ ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپیلوں پر سماعت کی ، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی جانب سے وکیل سلمان صفدر و دیگر جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای) پراسیکیوشن ٹیم میں حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی، نعیم اقبال و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔

(جاری ہے)

کمرہ عدالت میں ملزمان کے خاندانی افراد سمیت پارٹی قیادت اور وکلا کی بڑی تعداد موجود تھی، سائفر کیس میں تعینات اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے اپنے دلائل کا آغاز کردیا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ٹرائل کورٹ میں کیس سے متعلق تین بیک گراؤنڈ دیے ہیں، حامد علی شاہ نے کہا کہ میں دوسرے فرد جرم سے اپنے دلائل کا آغاز کروں گا، ویسے تو بہت کچھ سلمان صفدر نے بتایا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر میں کہہ دوں کہ میں سب کچھ بھول چکا ہوں تب کیا ہوگا باقی چیزیں اپنی جگہ یہ بتائیں سائفر اصل میں ہے کیا چیز پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ 8 مارچ 2022 کو سائفر بذریعہ ای میل وزارت خارجہ کو موصول ہوا، 7 مارچ 2022 کو سائفر واشنگٹن سے بنایا گیا تھا، سائفر ٹیلی گرام ایک سیکریٹ دستاویز ہے جسے بعد میں ڈی کوڈ کیا گیا۔

چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ صرف یہ سائفر خفیہ دستاویز تھا یا وہ تمام سائفر سیکریٹ ہوتے ہیں حامد علی شاہ نے کہا کہ تمام سائفر سیکریٹ ہوتے ہیں اور پھر اس کی گریڈنگ ہوتیں ہے۔اسی کے ساتھ کلاسیفائیدز ڈاکیومنٹس کی بک لیٹ کی کاپی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی۔عدالت نے دریافت کیا کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ یہ کاپی ہر وزارت میں موجود ہوتی ہی حامد علی شاہ نے کہا کہ ویسے تو یہ وفاقی کابینہ کی جاری کردہ ہے مگر کسی بھی وزارت کو آن ڈیمانڈ دیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں سائفر کا پتہ ہے مگر ایگزیکٹ نہیں پتہ، سلمان صفدر نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیا جو کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے اسے دور سے دیکھ رہا ہوں، حامد علی شاہ نے کہا کہ سر ان کی کاپی ان کے پاس موجود تھی اور جرح کے دوران انہوں نے استعمال بھی کیا۔حامد علی شاہ نے کہا کہ اگر یہ کاپی کسی کے پاس آ جائے تو وہ کوڈ بریک ہو جائے گا، اس کتابچے کے چیپٹر 8 میں سائفر سیکیورٹی کے حوالے سے بتایا گیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں عام طور پر تو معلوم ہے سائفر کیا ہوتا ہے مگر ہمیں آپ آگاہ کریں، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ بہت سے ممالک میں خفیہ معلومات کے لیے ایک سیل بنایا جاتا ہے ، جب کوڈڈ فارم میں ٹیکسٹ بھیجا جاتا ہے تو اسے ان کوڈز سے ڈی کوڈ کیا جاتا ہے ، سادی کاپی کو لفظ بہ لفظ ڈی کوڈ کیا جائے تو اسے ڈی کوڈ کرنے میں آسانی ہوتی ہے ، ہو باہو ترجمے میں معنی برقرار رہتے ہیں مگر ان کو بکھیر کر الفاظ تبدیل کردیے جاتے ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کوڈڈ سائفر کو وزرات خارجہ کے صرف متعلقہ بندے ہی ڈی کوڈ کرسکتے ہیں کیا ڈی کوڈ ہونے کے بعد والی جو کاپی ہے وہ غائب ہی حامد علی شاہ نے بتایا کہ ہر ملک کے ہر وزارتِ خارجہ کے اپنے کوڈز ہوتے ہیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تو اس کا مطلب ہے آج بھی سافٹ کاپی سسٹم میں پڑی ہوگی حامد علی شاہ نے جواب دیا کہ جی آج بھی وہی سافٹ اصلی کاپی سسٹم میں پڑی ہوگی، سائفر ٹیلی گرام کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ بٴْک لیٹ بھی خفیہ دستاویز ہی پراسیکیوٹر نے بتایا کہ اس پر لکھا ہوا ہے کہ یہ بٴْک صرف آفیشل استعمال کے لیے ہے، کلاسیفائیڈ ہے، یہ کتاب ڈپٹی اٹارنی جنرل کے نام پر ایشو ہوئی ہے تاکہ عدالت کے فیصلہ لکھنے تک یہاں موجود رہے، یہ بٴْک جس شخص کے نام ایشو ہوتی ہے اس نے ہر 6 ماہ بعد بتانا ہوتا ہے کہ اس کے پاس ہی ہے، سائفر جیسے آتا ہے تو بعد میں دونوں طرف سے تباہ کردیا جاتا ہے ،اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سائفر کی پرنسپل کاپی آج بھی وزرات خارجہ میں موجود ہی ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے بتایا کہ آج بھی سافٹ کاپی وزرات خارجہ میں موجود ہوگی، سائفر ایک سیکریٹ ڈاکومنٹ ہوتا ہے، اس کی کاپی نہیں کی جاسکتی, سائفر کی کاپی اگر کرنی ہو تو اس کی اجازت لی جاتی ہے،عدالت نے دریافت کیا کہ جو بک لیٹ آپ پڑھ رہے ہیں یہ ٹرائل کورٹ کے سامنے گئی تھی حامد علی شاہ نے بتایا کہ یہ بک لیٹ ٹرائل کورٹ میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا گیا،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ یہ دستاویز یعنی بک لیٹ خود بھی اکاونٹبل دستاویز ہی چیف جسٹس نے کہا کہ اس بک لیٹ میں لکھا ہے ہم نے بھی وہی کرنا ہی کیا ہم فیصلے میں لکھیں یہ بک لیٹ تو بہت پرانا ہوگا پتا نہیں اس دور میں کیا ضرورت تھی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس بک لیٹ میں صرف سائفر کی بات نہیں بلکہ بہت سارے دستاویزات کا کہا گیا ہے، چیف جسٹس جکا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں یہاں بہت سارے کیسسز میں آفیشل دستاویزات آتے جاتے ہیں۔

بعد ازاں چیف جسٹس عامر فاروق نیا سپریم کورٹ کے جسٹس رمدے ججمنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میرا ٹیکس ریٹرن کوئی پبلک ڈاکیومنٹ نہیں ہے، اگر آپ اس کی کاپی ساتھ لے کر گھمائیں تو وہ پبلک ڈاکیومنٹ تو نہیں ہے ناں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس ڈاکیومنٹ کو ہم ہمارے فیصلے کے لیے ریفر نہیں کرسکتے، جج نے کہا کہ ملزمان نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسارا کیا کہ یہ جو بک لیٹ سے متعلق وفاقی کابینہ کی ہدایات ہیں، ان کی قانونی حیثیت کیا ہی آپ نے بتانا ہے کہ کہاں کہاں پر قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہی باہر سے جب سائفر آتا ہے تو اسے کلاسیفائیڈ کون کرتا ہی حامد علی شاہ نے بتایا کہ سائفر وزرات خارجہ کا متعلقہ سیکشن کلاسیفائیڈ کرتا ہے، جو موضوع آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کے متعلق گواہوں پر دلائل بھی ساتھ دوں گا ،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یعنی ابھی آپ کا الزام صرف اتنا ہے کہ انہوں نے سائفر کاپی واپس نہیں کی جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ پرایکیوشن کی جانب سے ٹرائل کورٹ میں سزائے موت کی استدعا کی گئی ، سزا کی استدعا کی گئی مگر اس کے مواد عدالت میں پیش نہیں کیے گئے، اس ٹرائل کے پروسیجرل طریقہ کار کی پیروی نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آج جو دستاویزات ہمیں دیے گئے اگر ہمارے اسٹاف سے گم ہوجاتا ہے تو ہمارے خلاف ایف آئی آر ہو جائے گی آج یہ کتابچہ ہم سے واپس لے لیجیے گا آئندہ سماعت پر دوبارہ لے آئیے گا۔عدالت نے کہا کہ یہ تو بہت ہی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس ہیں، کیا اعظم خان نے عمران خان کو بتایا تھا جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے تو اس کتابچے کو رٹہ نہیں تو ان کو کیا پتا چیف جسٹس نے کہا کہ جب کاپیاں فراہم کی گئیں تو ان کی واپسی سے متعلق کوئی ہدایات لکھے تھی اوپر لکھنے والا معاملہ نہیں، آپ نے ہمیں بتانا ہے ہمیں نہیں پتا کہ اسٹامپ کہاں لگا ہی عدالت نے استفسار کہ کیا اعظم نے ان دونوں کو یہ بات بتایا تھا کہ اس ڈاکومنٹ کی حساسیت کیا ہے ان دونوں نے اس کو رٹا ہوا تو نہیں ہے ، بعض اوقات آپ کو نہیں پتہ ہوتا آپ نے ان کو کیسے ڈیل کرنا ہوتا ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہر کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ کے اوپر لکھا ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اوپر والا تو ہمارے پاس ہے نہیں ، کیونکہ ڈاکومنٹ تو ریکارڈ پر ہے ہی نہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ فوجداری کیس ہے شک کا تمام فائدہ اٴْن کو جائے گا، چیف جسٹس عامر فاروق نے ریماکرس دیے کہ بالکل کرمنل کیس ہے، شک کا معمولی سا فائدہ بھی ملزمان کو ہی جائے گا۔بعد ازاں عدالت نے سائفر اپیلوں کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات