گندم کو نقصان پہنچانے والے کیڑے جون میں زیادہ متحرک ہوتے ہیں،ذخیرہ کرنے میں احتیاط برتی جا ئے، خالد اقبال

بدھ 15 مئی 2024 17:19

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 مئی2024ء) محکمہ زراعت توسیع فیصل آباد کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرڈاکٹر خالد اقبال نے کہا کہ فصل کی برداشت کے بعد سب سے اہم کام اسے بہتر انداز میں ذخیرہ کرنے کا ہوتاہے کیونکہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے سے کیڑے مکوڑے پیداوار کو سخت نقصا ن پہنچا سکتے ہیں جبکہ گندم کو نقصان پہنچانے والے کیڑے جون کے مہینے میں زیادہ متحرک ہوتے ہیں اور مون سون کے دوران بارشوں کے باعث فضا میں نمی کی مقدار بڑھتے ہی ان کاحملہ شدت اختیار کر جاتاہے لہٰذا سٹاکسٹس گندم کو نقصان سے بچانے کےلئے ماہرین زراعت سے مشاورت کریں اور اس ضمن میں محکمہ زراعت توسیع کے فیلڈ سٹاف کی خدمات سے بھی استفادہ یقینی بنائیں تاکہ گندم کو بعد از برداشت نقصان سے بچایا جاسکے۔

خالد اقبال نے بتایا کہ زرعی تحقیق کے مطابق صوبہ پنجاب میں 2 درجن سے زائد ایسے کیڑے ہیں جو ذخیرہ شدہ غلہ کو گوداموں، کوٹھیوں اور بھڑولوں میں نقصان پہنچاتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ اس نقصان کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہم ملک میں پیدا شدہ غلہ کو ان موذی کیڑوں کے حملے سے بچا سکیں تو ہم اپنی خوراک کی ضرورت کے علاوہ دیگر ممالک کی ضروریات کو بھی پورا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کاشتکار وں کو ہدایت کی کہ بیج کو خشک اور صاف کر کے سٹور میں محفوظ کر یں اور سٹور کو کیڑوں سے پاک کرنے کےلئے 7 کلوگرام لکڑی فی ہزار مکعب فٹ جلائیں اورسٹور کو 48 گھنٹے تک بند رکھیں یا پھر سٹور میں محکمہ زراعت کے مقامی عملہ سے مشورہ کر کے موزوں زہر سپرے کریں۔انہوں نے کہا کہسسری، کھپرا اور دیگر دو درجن کے قریب کیڑے ہر سال ذخیرہ کے دوران گندم کی 5 سے15 فیصدپیداوارکو نقصان پہنچاتے ہیں لہٰذاسرکاری و غیر سرکاری، نجی اور انفرادی سطح پر گندم ذخیرہ کرنے کےلئے پختہ اور صاف ستھرے گوداموں کا انتخاب کیا جائے تاکہ گندم کی پیداوار کو ضرررساں کیڑے مکوڑوں سے بچانا ممکن ہو سکے۔

انہوں نے کہاکہ کاشتکار پرانی بوریوں کو پانی میں اسی نسبت سے زہر ملا کر اس میں ڈبوئیں اور خشک کر لیں نیز مزید احتیاط کےلئے سٹور میں زہریلی گیس والی گولیاں بحساب 40سے 50 فی ہزار مکعب فٹ استعمال کریں کیونکہ غلہ کو نقصان پہنچانے والے کیڑے عموماً گوداموں میں پڑی ہوئی استعمال شدہ بوریوں میں موجود ہوتے ہیں اور جب غلہ بھرنے کےلئے ان بوریوں کو دوبارہ استعمال میں لایا جاتا ہے تو یہ کیڑے غلہ میں مل جاتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد نے کہاکہ بعض اوقات جب نئی بوریاں گوداموں میں پرانی بوریوں کے ساتھ رکھ دی جاتی ہیں تو پرانی بوریوں سے کیڑے مکوڑے نئی بوریوں میں منتقل ہو جاتے ہیں اور اپنی نسل کشی شروع کر دیتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ غلہ کی چھان پھٹک اور گوداموں کی صفائی کے وقت ضائع شدہ غلہ اور گردو غبار گوداموں کے قریب نہ پھینکیں کیونکہ نقصان رساں کیڑے اڑ کر یا رینگ کر واپس گوداموں میں پہنچ جاتے ہیں اور دوبارہ حملے کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ متاثرہ غلہ کو گوداموں کے پاس ہی کھلی دھوپ میں سکھانے کےلئے نہ ڈال لیں کیونکہ وہاں سے کچھ کیڑے زندہ بچ کر واپس گوداموں میں چلے جاتے اور ذخیرہ شدہ غلے کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔