ابوظہبی میں خطے کی پہلی بئیر فیکڑی

DW ڈی ڈبلیو اتوار 19 مئی 2024 15:40

ابوظہبی میں خطے کی پہلی بئیر فیکڑی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2024ء) ابوظہبی کے گیسٹرو پب میں چاڈ میک گیہی اسٹیل سے بنے اُن چمکدار ٹینکوں کا معائنہ کر رہے ہیں، جہاں ایک خاص مرکب کو اُبالا جا رہا ہے۔ یہ قدامت پسند عرب خلیج کی پہلی بیئر فیکڑی ہے، جہاں شراب ایک طویل عرصے سے ممنوع ہے۔

امریکہ سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ میک گیہی متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں کرافٹ پب کے بانیوں میں سے ایک ہیں اور وہ خطے کی واحد لائسنس یافتہ مائیکرو بروری چلا رہے ہیں۔

تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک مستقبل کی تیاری کرتے ہوئے اپنی معیشتوں کو بہتر بنانے کی کوشش رہے ہیں۔ کچھ خلیجی ممالک نے شراب پر عائد پابندیوں میں نرمی پیدا کی ہے اور میک گیہی جیسے کاروباری افراد ان تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

ابوظہبی سے صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر اسلام کی جائے پیدائش سعودی عرب ہے، جہاں صرف ایک لائسنس یافتہ شراب کی دکان ہے۔

یہ دکان صرف غیر مسلموں اور غیر ملکی سفارت کاروں کے لیے ہے۔

عمان اور قطر میں شراب کی فروخت پر بہت زیادہ پابندیاں ہیں جبکہ کویت اور شارجہ میں اس پر مکمل پابندی ہے۔

میک گیہی نے کرافٹ کے حالیہ دورے پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''ہمیں امید ہے کہ ہم ابوظہبی کو بھی جرمنی، نیویارک یا سان ڈیاگو کی طرح ایک ایسی منزل بنائیں، جہاں لوگ بیئر کے لیے آتے ہیں۔

‘‘

شراب کی فروخت اور قوانین میں نرمی

متحدہ عرب امارات میں شراب سے متعلق قوانین میں بتدریج نرمی پیدا کی گئی ہے۔ گزشتہ برس دبئی نے شراب پر عائد 30 فیصد ٹیکس ختم کر دیا تھا جبکہ غیر مسلموں کے لیے شراب فروخت کرنے کے اجازت نامے پر عائد فیس بھی ختم کر دی گئی تھی۔

شراب سے متعلق قوانین آہستہ آہستہ دوسری جگہوں پر تبدیل ہو رہے ہیں۔

سعودی عرب نے رواں سال دارالحکومت ریاض میں ایک شراب خانے کی اجازت فراہم کی، جس کے بعد یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ مستقبل میں الکوحل کے قوانین میں مزید نرمی کر سکتا ہے۔ تاہم سعودی وزیر سیاحت احمد الخطیب نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ شراب کے حوالے سے قومی سطح پر پابندی برقرار رہے گی۔

متحدہ عرب امارات کی تقریباً 10 ملین آبادی میں سے 90 فیصد غیر ملکی ہے جبکہ ماضی میں یہاں شراب کی فروخت اور استعمال صرف ہوٹلوں تک ہی محدود تھی، جہاں زیادہ تر تارکین وطن ہی آتے تھے۔

فرانس سے تعلق رکھنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر الیگزینڈر کازروونی کے مطابق ایران میں سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد خلیجی بادشاہتیں بھی قدامت پرستی اور مذہب کی طرف بہت زیادہ جھکنے لگیں۔ یہ سن 2000 کی دہائی میں ہوا کہ 9,000 سے زیادہ مساجد والے ابوظہبی نے ایک زیادہ لبرل امیج کو فروغ دینا شروع کیا۔ اسی طرح دھیرے دھیرے سماجی پابندیوں میں نرمی پیدا کی گئی۔

کازروونی کے مطابق شراب کے ضوابط میں تبدیلی سے ان پابندیوں کو ختم کیا جا رہا ہے، جو 80 اور 90 کی دہائی میں مضبوط کی گئی تھیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ''یہاں قطر اور سعودی عرب کے ساتھ بھی مقابلہ ہے کہ خطے میں کون تبدیلی لائے گا۔‘‘

ابوظہبی سن 2030 تک سالانہ تقریباً 40 ملین سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتا ہے۔ گزشتہ برس یہ تعداد تقریبا 24 ملین تھی۔

کرافٹ پب کے گاہک اینڈریو برجیس ایک برطانوی شہر ہیں اور 17 برسوں سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ''میں نے اس نے ملک کو اپنی آنکھوں کے سامنے بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ یہاں سب کچھ بدل گیا ہے لیکن خلیجی ممالک کے بارے میں مغربی سوچ اور رویے ابھی تک وہی پرانے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ''جب میں واپس انگلینڈ جاتا ہوں تو میرے دوست کہتے ہیں کہ تم مسلمان ملک میں کیسے رہتے ہو؟ آپ کی بیوی کو تو کوئی آزادی حاصل نہیں ہو گی اور تم شراب بھی نہیں پی سکتے ہو گے؟‘‘

برجیس کے مطابق وہ یہاں آئیں تو کرافٹ جیسی مائیکرو بریوری ان کی آنکھیں کھول دے، ''یہ لوگوں کے ذہنوں کی تشکیل نو کے بارے میں ہے۔

‘‘

ا ا / ع ب (اے ایف پی)