پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے سالانہ ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ، ماہرین صحت

جمعہ 31 مئی 2024 20:16

پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے سالانہ ایک ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 مئی2024ء) ماہرین صحت نے کہا ہے کہ پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے سالانہ ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہو جاتی ہیں جس سے ملکی معیشت پر 615 ارب روپے کا بوجھ پڑتا ہے، تمباکو ٹیکس کھپت کو کم کرنے کے لئے عالمی سطح پر تسلیم شدہ اور موثر ذریعہ ہے، تمباکو ٹیکس میں 37 فیصد اضافے سی000 ، 757کم تمباکو نوشوں کے ساتھ تین گنا جیت ہوسکتی ہے، ٹیکس آمدنی میں 12.1 فیصد اضافہ اور صحت کے اخراجات میں 17.8 فیصد کی بحالی ہوسکتی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کی پالیسیاں نہ صرف زندگیاں بچاتی ہیں بلکہ قومی معیشت کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں،ماہرین صحت نے ان خیالات کا اظہار تمباکو نوشی کے خاتمے کے عالمی دن پر نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیں منعقد ہونے والے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

تمباکو کا ٹیکس ریوینیو ، صحت عامہ، تعلیم ، نوجوانوں اور معیشت پر اثرات کے اہم مسئلے پر مشتعل اس سیشن کا انعقاد ہیومن ڈیویلپمنٹ فائونڈویشن (ایچ ڈی ایف) نے اپنی دیگرشراکت دار تنظیموں کرومیٹک ٹرسٹ ، سپارک ، عورت فائونڈیشن ، انڈس ہسپتال اینڈہیلتھ نیٹ ورک او ر ایس پی ڈی سی کے تعاون سے کیا تھا ، اس سیشن کا مقصد تمباکو نوشی کے خطرات اور اس کی روک تھام کیلئے ٹیکس کے اضافے پر آگاہی پیدا کرنا تھا ، اس میڈیا سیشن میں صحت پر تمباکو کے مضر اثرات پر روشنی ڈالی گئی ،سیشن میں بتایا گیا کہ پاکستان میں تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے سالانہ 1لاکھ 60ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوجاتی ہیں جس سے ملکی معیشت پر 615ارب روپے کا بوجھ پڑتا ہے۔

صحت عامہ کے ماہر ڈاکٹر شفیق رحمان نے تمباکو کے استعمال اور اس منفی نتائج کو روکنے کیلئے جامع اقدامات کی اشد ضرورت پر زور دیا ,بریفنگ میں تعلیم اور نوجوانوں کی ترقی پر تمباکو کے خطرناک اثرات پر اظہار خیال کرتے ہوئے نیکوٹین پائوچ اور ای سیگریٹ جیسی نئی تمباکو مصنوعات کے پھیلائو پر اپنے خدشات کا اظہار کیا گیاجو سوشل میڈیا ، ٹی وی پر مشہور شخصیات کی جارحانہ مارکیٹنگ سے نوجوانوں کا استحصال کرتے ہیں ، ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی ) کے ڈائریکٹر انچارج سلیمان احمد نے اس طرح کی تمام مصنوعات کو فوری طور پر ریگولیٹ کرنے کی اشد ضرورت پر زور دیتے ہوئے تعلیمی اداروں میں انسداد تمباکو /نیکو ٹین پالیسیوں کے نفاذ کیلئے ایچ ای سی کے عزم کا اعادہ کیا، انہوں نے میڈیا پر زور دیا کہ وہ نیکو ٹین کی مصنوعات پر پابندی اور نوجوانوں میں آگاہی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرے،بریفنگ میں تمباکو کے استعمال کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی دبائو کا بھی جائزہ لیا گیا ، تمباکو کنٹرول ایکٹویسٹ ملک عمران احمد نے تمباکو پر ٹیکس میں اضافے کے ممکنہ فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ تمباکو کنٹرول کرنے کا عالمی سطح پر تسلیم شدہ کم لاگت اور سستا ترین موئر آلہ ہے۔

انہوں نے تمباکو کی صنعت کی جانب سے برآمدات کی آڑ میں 10سگریٹ والی ڈبی کا متعارف کرانے کی کوشش کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ان کی کم قیمت ہونے کی وجہ سے اندرون ملک استعمال میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے اسے ’’ ہمارے نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا ایک اور ذریعہ ‘‘ قرار دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس تجویز کو مسترد کرے اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس طرح کے پیک پاکستان میں لانچ نہ ہوں ،بریفنگ میں تمباکو ٹیکس کی پالیسیوں میں مجوزہ تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا اور صحت عامہ اور حکومتی آمدنی دونوں پر ان کے ممکنہ اثرات کا تجزیہ کیا گیا۔

ایچ ڈی ایف نے تمباکو کنٹرول مہم کی فوکل پرسن عر وج راجپوت نے ایک جدید ریسرچ سے اپنی قیمتی رائے کا اظہار کیا ’’ تمباکو ٹیکس میں 37فیصد اضافہ سے تین ٹارگٹ حاصل کیے جا سکتے ہیں 757000ہزار تمباکو نوش کم ہوسکتے ہیں ، ٹیکس آمدنی میں 12.1 فیصداضافہ اور صحت کے اخراجات میں 17.8فیصدکی بحالی ہوسکتی ہے۔ ایسی موثر پالیسی نا صرف زندگیاں بچاتی ہیں بلکہ قومی معیشت کو بھی بہتر بناتی ہیں,بریفنگ میں پالیسی سازوں پر زور دیاگیا وہ اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ اور تمباکو سے پاک پاکستان کے قیام کیلئے سٹریجک ٹیکس پالیسی وضع کریں۔