ملک بھر میں 99فیصد بچے سگریٹ نوشی کے دھوئیں کا شکار ہیں، تحقیق

جمعرات 11 جولائی 2024 19:45

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جولائی2024ء) آغا خان یونیورسٹی کے کمیونٹی ہیلتھ سائنسز اور میڈیسن کے محققین کی مشترکہ تحقیق کے مطابق پاکستان اور بنگلہ دیش کے 95 فیصد بچوں میں سگریٹ نوشی کے دھوئیں (SHS - Second-Hand Smoking)کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔SHS اس وقت ہوتا ہے جب ایک فعال سگریٹ نوشی کرنے والے کے ارد گرد موجود لوگ سگریٹ نوشی سے خارج ہونے والا دھواں سونگھ لیں۔

یہ سگریٹ نوشی کے انتہائی پریشان کن اثرات کو اجاگر کرتا ہے جو مختلف سماجی جگہوں میں سرایت کر سکتے ہیں خاص طور پر ایسی جگہوں پر جہاں سگریٹ نوشی کی پابندیوں پر عمل در آمد نہیں ہوتا۔ تحقیق کے دو مقامات ڈھاکہ اور کراچی میں محققین کے مطابق SHS کی سطح سے ظاہر ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی کی وسیع پیمانے پر اور بغیر کے روک ٹوک کے جاری ہے۔

(جاری ہے)

یہ نتائج جو کہ نیکوٹین اور تمباکو ریسرچ جرنل میں شائع ہوئے ہیں کراچی، پاکستان میں SHS کی انتہائی بلند سطح کا ثبوت فراہم کرتے ہیں جہاں تقریباً تمام (99.4%) بچے SHS کا شکار پائے گئے جن میں سے زیادہ تر مردوں کی سگریٹ نوشی کی وجہسے ہوتا ہے۔

تحقیقاتی ٹیم نے ڈھاکہ اور کراچی کے 74 پرائمری اسکولوں سے 2769 بچوں جن کی عمر 9-14 سال تھی پر ایک سروے کیا تاکہ ان کے SHS کے اثرات کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اثرات کو ماپنے کے لیے انہوں نے ان کے لعاب کو ٹیسٹ کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا اس میں کوٹینین موجود ہے یا نہیں۔ انہوں نے دونوں شہروں میں رہائشیوں اور مہمانوں کے بالغ سگریٹ نوشی کے رویے اور بچوں میں لعابی کوٹینین کی سطح کے درمیان تعلق کا جائزہ لیا۔

وہ بچے جو سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کے درمیان رہتے ہیں ان میں SHSکے اثرات کی سطح زیادہ معلوم ہوئی با نسبت ان بچوں کے جو سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کے درمیان نہیں رہتے۔ اسی طرح جن گھروں میں سگریٹ نوشی کی جاتی ہے وہ ان بچوں کے مقابلے میں تھوڑی زیادہ SHS سطح رکھتے ہیں جہاں سگریٹ نوشی نہیں کی جاتی۔ آغا خان یونیورسٹی کے ڈاکٹر رومینہ اقبال اور پروفیسر جاوید خان نے نشاندہی کی کہ ’’بچوں کا SHS کے اعلیٰ سطح پر ہونا کئی ترقی یافتہ ممالک کے اعداد و شمار کے برعکس ہے جہاں اب صرف اقلیت کے بچے ایسے خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔

‘‘سگریٹ نوشی کے دھوئیں کے اثرات کو دنیا بھر کے سائنسدانوں نے طویل عرصے سے مشاہدہ اور تجزیہ کیا ہے اور یہ خوفناک ہیں۔ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نوزائیدہ و شیر خوار بچوں میں سانس کی نالی کے مختلف انفیکشن اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ مزید برآں، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ موروثی امراض کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے زندہ رہنے کے امکانات کم ہوتے ہیں جب انہیں سگریٹ نوشی کے دھوئیں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اورسڈن انفنٹ ڈیتھ سنڈروم (SIDS) کی تعدد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

آرک فاؤنڈیشن، بنگلہ دیش کی پروفیسر رومانہ حق جو اس تحقیق کی شریک مصنفہ بھی ہیں نے کہا کہ ’’اس تحقیق کے نتائج واقعی تشویشناک ہیں اگر ہم بچوں کو سگریٹ نوشی کے دھوئیں (SHS) کی زد میں آنے سے نہیں بچا سکے تو ان میں سانس کی بیماریوں اور متعلقہ اموات کا خطرہ بڑھ جائے گا اور ان کی تعلیمی کارکردگی کمزور ہو جائے گی اور بعد کی زندگی میں سگریٹ نوشی کی شرح زیادہ ہو جائے گی۔

‘‘پروفیسر کامران صدیقی، یونیورسٹی آف یارک برطانیہ جو کہ اس تحقیق کے چیف انویسٹیگیٹر ہیں نے کہا کہ ’’بچوں کو SHS کے اثرات سے بچانے کے لئے سگریٹ نوشی سے پاک گھروں اور گاڑیوں کے حق میں بات کرنا ضروری ہے۔ تاہم ان اقدامات کے علاوہ عوامی مقامات اور ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی پر پابندیوں کو بھی نافذ کرنا ضروری ہے خاص طور پر وہ عوامی مقامات جہاں بچوں کی اکثریت پائی جاتی ہے جیسے کھیل کے میدان، پارکس اور میلے وغیرہ۔

ان پابندیوں کو تمباکو سے پرہیز کے مشورے اور مدد کے ساتھ مکمل کرنا ضروری ہے۔‘‘تحقیقاتی ٹیم نے بچوں کو اس نقصان سے بچانے کے لیے جامع طریقہ کار کی اپیل کی ہے کہ گھروں میں سگریٹ نوشی کی پابندیاں اور عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی کی پابندیوں کے نفاذبہت ضروری ہے۔#