نئے آنے والوں کی نسبت سویڈن چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ

DW ڈی ڈبلیو اتوار 8 ستمبر 2024 13:00

نئے آنے والوں کی نسبت سویڈن چھوڑنے والوں کی تعداد میں اضافہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 ستمبر 2024ء) ایک طویل عرصے بعد یورپی ملک سویڈن میں آنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اگست کے اوائل میں سویڈش وزیر برائے مائیگریشن ماریا مالمر شٹینرگارڈ نے حکومتی اعداد و شمار پیش کیے تھے، جن کے مطابق جنوری 2024 سے لے کر مئی تک اس ملک میں آنے والے مہاجرین کی نسبت، 5,700 سے زائد افراد یہ ملک چھوڑ کر گئے۔

ماریا مالمر شٹینرگارڈ کے مطابق اس رجحان کے جاری رہنے کی توقع ہے جبکہ سویڈن میں پناہ کی درخواستوں کی تعداد سن 1997 کے بعد پہلی مرتبہ اتنی کم ہوئی ہے۔

سویڈش حکومت کی سخت پالیسیاں

مہاجرین کی کم تعداد کو حکومتی پالیسی میں تبدیلی سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ سن 2015 کے آخر میں حکمران سوشل ڈیموکریٹس نے سویڈن کی ان سابقہ ​​لبرل امیگریشن اور انضمام کی پالیسیوں کو ختم کر دیا تھا، جن کے تحت سابقہ ​​یوگوسلاویہ، افغانستان، شام، عراق اور صومالیہ جیسے بحران زدہ ممالک سے بہت سے پناہ گزینوں کو قبول کر لیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس وقت سوشل ڈیموکریٹس نے مائیگریشن پالیسیوں کو مزید سخت بھی بنا دیا تھا۔

کیا یورپی یونین کے رکن ممالک سیاسی پناہ کی مشترکہ پالیسی پر متفق ہو جائیں گے؟

اکتوبر 2022 سے سویڈن میں قدامت پسند وزیر اعظم اولف کرسٹرسن کی قیادت میں ایک اقلیتی حکومت اقتدار میں ہے، جسے انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست سویڈن ڈیموکریٹس کی حمایت حاصل ہے۔

اس حکومت نے سویڈن میں داخل ہونے والے سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی رجسٹریشن، رہائش تلاش کرنے اور ان کی دیکھ بھال کے نظام کو سخت بناتے ہوئے مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

عراقی، صومالی اور شامی شہری سویڈن چھوڑ رہے ہیں

سویڈش حکومت کی تازہ ترین پریس ریلیز کے مطابق ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جو اصل میں عراق، صومالیہ یا شام سے آئے تھے لیکن اب یہ ملک چھوڑ رہے ہیں۔

تاہم ایسے اعداد و شمار سامنے نہیں آئے کہ رضاکارانہ طور پر یہ ملک چھوڑنے والے مہاجرین کی اصل تعداد کتنی ہے؟

ماریا مالمر شٹینرگارڈ کے مطابق ملک میں مہاجرین کی تعداد میں کمی گزشتہ آٹھ سالہ سخت پالیسیوں کا نتیجہ ہے، ''حکومتی کوششوں کے نتائج اب سامنے آ رہے ہیں۔‘‘

سویڈن: مہاجرین کے علاقے میں جھڑپیں، پولیس فائرنگ

تارکین وطن کی طرف سے سویڈن چھوڑنے کے محرکات بھی واضح نہیں ہیں۔

جرمنی کے وفاقی ادارے برائے شہری تعلیم سے وابستہ سویڈش مائیگریشن ماہر بیرنڈ پاروزل کہتے ہیں، ''پناہ کے متلاشیوں کی زندگیوں کو مشکل بنانا اور لوگوں کو اس طرح رضاکارانہ بنیادوں پر سویڈن چھوڑنے کی ترغیب دینے کا یہ کوئی مناسب طریقہ نہیں ہے۔‘‘

بیرنڈ پاروزل کہتے ہیں کہ اگر سویڈن میں آنے والے مہاجرین کو اسی طرح مراعات اور رہائش سے محروم رکھا گیا تو مزید سماجی مشکلات پیدا ہوں گی۔

وہ کہتے ہیں کہ غیرملکیوں کے معاشرے میں انضمام کے لیے ضروری ہے کہ مائیگریشن کے نظام کو اچھے طریقے سے چلایا جائے۔

پہلی نظر میں یہ پالیسی منطقی معلوم ہو سکتی ہے کہ اگر کم لوگ ہوں گے تو تارکین وطن کو ضم کرنا بھی آسان ہو گا۔ تاہم بیرنڈ پاروزل کے مطابق سہولیات اور مراعات کو ختم کرتے ہوئے تارکین وقت کو اندھیرے میں رکھنا اور پھر یہ امید رکھنا کہ ان کا معاشرے میں تیزی سے انضمام بھی ہو جائے گا، ایسا نہیں ہوتا۔

انیس آئزل ( ا ا، ش ر)