پلاسٹک آلودگی ختم کرنے کے لیے جنوبی کوریا میں مزاکرات شروع

یو این پیر 25 نومبر 2024 22:15

پلاسٹک آلودگی ختم کرنے کے لیے جنوبی کوریا میں مزاکرات شروع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 نومبر 2024ء) پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے کے معاملے پر اہم بات چیت جنوبی کوریا میں شروع ہو گئی ہے جس میں دنیا کو اس مسئلے سے نجات دلانے کے قانونی معاہدے پر اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یونیپ) کی قیادت میں ہونے والا یہ اجلاس اس مسئلے پر بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی کی گفت و شنید کا پانچواں دور (آئی این سی۔

5) ہے۔ اس کمیٹی کو خشکی اور سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی ختم کرنے کا معاہدہ طے کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس بات چیت کا آغاز آج سے 1,000 یوم قبل یوروگوئے میں ہوا تھا۔

Tweet URL

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اس اجلاس کے لیے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ دنیا پلاسٹک کی آلودگی میں غرق ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

ہر سال 460 ملین ٹن پلاسٹک پیدا ہوتا ہے جس کی بڑی مقدار استعمال کے فوری بعد پھینک دی جاتی ہے۔ دنیا کو اس آلودگی سے چھٹکارا دلانے کے لیے اس بات چیت میں شریک مندوبین کو جلد از جلد معاہدہ کرنا ہو گا۔

پرعزم اور منصفانہ معاہدے کی ضرورت

انتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو ممکنہ طور پر سمندروں میں پلاسٹک کی مقدار مچھلیوں سے بڑھ جائے گی۔

پلاسٹک کے باریک ذرات انسانی خون میں بھی شامل ہو چکے ہیں اور ان سے ایسے طبی مسائل جنم لے رہے ہیں جن کے بارے میں لوگوں نے ابھی محض سوچنا ہی شروع کیا ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ یہ معاہدہ پرعزم، قابل بھروسہ اور منصفانہ ہونا چاہیے۔ اس میں پلاسٹک کی تلفی کے لیے درکار وقت کے علاوہ پلاسٹک کے ایک مرتبہ استعمال اور بہت کم مدت کے لیے استعمال ہونے والے پلاسٹک، کچرے کو ٹھکانے لگانےکے انتظام، پلاسٹک کے استعمال کا بتدریج خاتمہ کرنے اور اس کے متبادل کو فروغ دینے سے متعلق معاملات مدنظر رکھے جانا ضروری ہیں۔

ان مسائل سے نمٹنے کا حل پیش کرنے والے معاہدے کی بدولت تمام ممالک کو ٹیکنالوجی تک رسائی اور زمینی و سمندری ماحول کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ اس طرح کچرا جمع کرنے والے بدحال لوگوں کے روزگار اور زندگی کو تحفظ دینے کے اقدامات بھی ممکن ہو سکیں گے۔

آلودگی کے خاتمے کا عالمگیر عزم

یونیپ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے حالیہ اجلاس میں معاہدہ طے پانے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا میں کوئی فرد یہ نہیں چاہتا کہ ساحل سمندر پلاسٹک سے اٹے ہوں اور یہ آلودگی اس کے یا دنیا میں آنے والے بچوں کے جسم کا حصہ بنے۔

صنعتی ممالک کے گروہ 'جی 20' نے بھی یہی بات کہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بعض اقسام کے پلاسٹک کو تلف ہونے میں 1,000 برس درکار ہوتے ہیں۔ تب بھی یہ پوری طرح ختم نہیں ہوتا بلکہ چھوٹے ذرات کی شکل میں باقی رہ کر ماحول کو آلودہ کرتا رہتا ہے۔ اس سے ماحولیاتی نظام کمزور پڑنے لگتا ہے، شہروں میں نکاسی آب کے نظام میں رکاوٹ آتی ہے، انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے اور اس آلودگی میں اضافہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ کوڑا کرکٹ چننے والوں اور سول سوسائٹی کے گروہ بھی اس آلودگی پر قابو پانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ کاروبار دنیا کو پلاسٹک کی آلودگی سے بچانے کے لیے عالمگیر قوانین کا مطالبہ کر رہے ہیں، قدیمی مقامی باشندے بھی اس مسئلے کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور سائنس دان اس آلودگی کو ختم کرنے کے لیے سائنسی طریقوں سے کام لینے کی بات کر رہے ہیں۔

مالیاتی شعبہ اس ضمن میں بین الاقوامی سطح پر اقدامات کر رہا ہے۔ اس کی جانب سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی کے خلاف معاہدہ ناگزیر ہے اور گزشتہ ہفتے 'جی 20' اعلامیے میں بھی یہی بات کہی گئی تھی کہ وہ رواں سال کے آخر تک اس معاہدے پر اتفاق رائے چاہتے ہیں۔

زندگی کے لیے خطرہ

170 سے زیادہ ممالک اور 600 مشاہدہ کار ادارے/تنظیمیں جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اس بات چیت میں شریک ہیں۔

اس موقع پر ملک کے صدر یون سوک یول نے اپنے ویڈیو خطاب میں مندوبین پر زور دیا ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کی خاطر پلاسٹک کی آلودگی کا مکمل خاتمہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ پلاسٹک پر حد سے زیادہ انحصار کا نتیجہ پلاسٹک کے کچرے میں تباہ کن اضافے کی صورت میں نکلا ہے۔ یہ کچرا دنیا بھر کے سمندروں اور دریاؤں کا حصہ بن کر زندگی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ ہفتے میں تمام رکن ممالک یکجہتی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پلاسٹک کی آلودگی کا خاتمہ کرنے کا معاہدہ طے کرتے ہوئے انسانی تاریخ میں کامیابی کے ایک نئے باب کا اضافہ کریں گے۔