ثانوی تعلیمی بورڈز کے اساتذہ اور امتحانی مراکز کے نگران عملے کو بڑا ریلیف

ہزاروں اساتذہ اور دیگر عملے کو فائدہ پہنچے گا، امتحانی پرچوں کی مارکنگ اور اِنوی جیلیٹرز پر 10 فیصد ٹیکس قانون کا غلط استعمال ہے: وفاقی ٹیکس محتسب

Shahid Nazir Ch شاہد نذیر چودھری جمعرات 13 مارچ 2025 15:57

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 مارچ 2025ء )ایک سرکاری ہائر سیکنڈری سکول کے 161 اساتذہ کرام نے وفاقی ٹیکس محتسب میں شکایت درج کرائی کہ وہ اپنی باقاعدہ تدریسی ذمہ داریوں کے علاوہ ثانوی بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے انعقاد، امتحانی مراکز کی نگرانی اور امتحانی پرچوں کی جانچ پڑتال اور مارکنگ کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں، وہ باقاعدہ ملازم ہیں اس کے باوجود ان ذمہ داریوں کے معاوضے پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2000ء کی شق 153(1)(b) کے تحت ٹیکس کاٹا جا رہاہے جبکہ ٹیکس شق 149 کے تحت کاٹا جانا چاہئے۔

وفاقی ٹیکس محتسب کے دفتر میں کارروائی کے دوران ایف بی آر کے نمائندے نے اپنے خط نمبر 3811 میں لکھا کہ شکایت کنندگان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے باقاعدہ (ریگولر) ملازم  نہیں ہیں، وہ بطور اساتذہ محکمہ تعلیم پنجاب کے ملازم ہیں۔

(جاری ہے)

امتحانات کی نگرانی اور پرچوں کی مارکنگ اُن کے اضافی فرائض میں شامل ہیں اور تنخواہ کا حصہ نہیں ہے۔ یہ رقم شق 153(1)(b) کے تحت خدمات کے دائرے میں آتی ہیں لہٰذا، بورڈ آف انٹرمیڈیٹ و سیکنڈری ایجوکیشن کی جانب سے انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 153(1)(b) کے تحت ود ہولڈنگ ٹیکس کٹوتی درسے ہے۔

وفاقی ٹیکس محتسب، ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ (i) امتحانات کا انعقاد، امتحانی عمل کی نگرانی اور پرچوں کی مارکنگ مربوط تعلیمی نظام کا لازمی حصہ ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اِن فرائض کا بنیادی مقصد طلباء کی علمی صلاحیتوں کی تشخیص اور درجہ بندی کرنا ہے۔ تشخیص کا یہ نظام اس نصاب اور کورس کا ناگزیر جزو ہے جس کی تعلیم وہ دیتے ہیں۔

دراصل، امتحانی نظام تدریسی عمل کی ہی توسیع ہے۔ (ii) یہ فرائض اساتذہ اپنی ڈیوٹی کے اوقات کے دوران، اپنے آجر یعنی صوبائی محکمہ تعلیم کی ہدایات اور رضامندی کے بعد پوری تندہی سے انجام دیتے ہیں۔ (iii) تمام سکولز اور کالجز مذکورہ اسائنمنٹس کیلئے دستیاب اساتذہ اور عملے کی فہرستیں صوبائی محکمہ تعلیم کے ساتھ شیئر کرنے کے پابند ہیں، کسی بھی قسم کا انکار سرکاری احکامات کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔

(iv) اساتذہ کرام ثانوی تعلیمی بورڈز کے بورڈز آف گورنرز کے مقررہ کردہ معاوضوں پر گفت و شنید کے مجاز نہیں جبکہ سیکرٹری سکولز و کالجز مذکورہ بورڈز آف گورنرز کے رکن ہیں۔ (v) اساتذہ کرام اور عملے کو مذکورہ فرائض کا نہایت معمولی معاوضہ ملتا ہے۔ مزید براں، نگرانی پر مامور پرائمری سکولز کے سینکڑوں اساتذہ اور عملے کی تنخواہیں عموماً چھ لاکھ روپے تک ٹیکس میں چھوٹ کی حد سے کم ہیں لیکن ان سے بھی انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق شق 153(1)(b) کے تحت ٹیکس وصول کیا جا رہاہے۔

(vi) انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کی شق 12 خصوصی طور پر تنخواہ سے متعلق ہے۔ اِس کا ذیلی حصہ 5 شکایت کنندگان کے معاملے کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔ بمطابق پیرا ایک تا پانچ؛ اس آرڈیننس کی رو سے، ملازم کی وصول کردہ کسی بھی رقم یا مراعات کو تنخواہ (کا حصہ) سمجھا جائے گا خواہ وہ کسی بھی ملازمت/ کام  کے ذریعہ وصول کی جائے۔ قطع نظر اس کے، کہ رقم یا مراعات (الف) ملازم کے آجر نے ادا کی ہو یا آجر کے ساتھی، یا کسی تیسرے فریق نے ادا کی ہو، جس کا آجر کے ساتھ کوئی معاملہ طے ہو۔

پس، انٹرمیڈیٹ و ثانوی تعلیمی بورڈز محکمہ تعلیم سے ایک انتظام کے تحت سپروائزری اور ویجیلیشن عملے اور پرچے چیک کرنے والے اساتذہ کرام کو معاوضہ، فیس/ اجرت ادا کرتے ہیں لہٰذا، ہر لحاظ سے انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 149 کے تحت ٹیکس ود ہولڈنگ کاٹا جانا چاہئے نہ کہ شق 153(1)(b) کے تحت۔ شق 153(1)(b) کے تحت ٹیکس کٹوتی امتیازی سلوک ہے جو کہ ایف ٹی او آر ڈیننس 2000ء کی رو سے بدانتظامی ہے۔

وفاقی ٹیکس محتسب، ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے ایف بی آر کو ہدایت کہ؛ آر ٹی او گوجرانوالہ، انٹرمیڈیٹ و ثانوی تعلیمی بورڈ کے ساتھ مکمل رابطے کے ذریعے شکایت کنندگان اساتذہ اور نگران عملے کی ادائیگیوں اور امتحانی پرچوں کی مارکنگ فیس پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2000ء کی شق 149 کے تحت ود ہولڈنگ ٹیکس کی کٹوتی کو یقینی بنائیں۔

متعلقہ عنوان :