اندھا دھند شکار سمندروں میں مچھلیوں کی بقاء کے لیے خطرہ لاحق، ایف اے او

یو این جمعرات 12 جون 2025 07:00

اندھا دھند شکار سمندروں میں مچھلیوں کی بقاء کے لیے خطرہ لاحق، ایف اے ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 12 جون 2025ء) دنیا بھر کے سمندروں میں مچھلیوں کے 35 فیصد ذخائر ناپائیدار ماہی گیری سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی اور پلاسٹک کی آلودگی آبی حیات کی بقا کے لیے سنگین خطرہ بن گئی ہے۔

فرانس کے شہر نیس میں جاری اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے سمندر (یو این او سی 3) کے تیسرے روز سمندروں میں حد سے زیادہ اور آبی ماحول کے لیے نقصان دہ طریقوں سے ہونے والی ماہی گیری کا مسئلہ موضوع بحث رہا۔

Tweet URL

نیس کی تاریخی لیمپیا بندرگاہ پر صحافیوں سے بات چیت کے دور میں اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل مینوئل بارنگا نے مچھلیوں کے عالمگیر سمندری ذخائر کی موجودہ صورتحال سے متعلق جائزہ رپورٹ پیش کی۔

(جاری ہے)

اس موقع پر انہوں نے انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں سمندروں کو ہونے والے نقصان اور بہتر انتظام کے ذریعے اس کا ازالہ کرنے کے طریقوں سے متعلق بھی بتایا۔

اس سے قبل یو این نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حد سے زیادہ ماہی گیری کے نتیجے میں مچھلیوں کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی آ رہی ہے۔ رپورٹ کی تیاری کے لیے دنیا بھر کے سمندروں میں مچھلیوں کے 2,570 ذخائر کا جائزہ لیا گیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ جگہوں پر حد سے زیادہ ماہی گیری ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مچھلیوں کے ذخائر کو تحفظ دینے کے لیے مثبت پیش رفت بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں بطور خوراک استعمال ہونے والی 77 فیصد سے زیادہ مچھلی ایسی جگہوں سے آتی ہے جو پائیدار انتظام کی بدولت اچھی پیداوار دے رہی ہیں۔

پائیدار ماہی گیری کی مثال

رپورٹ کے مطابق، امریکہ اور کینیڈا میں بحرالکاہل کے ساحل پر 90 فیصد ماہی گیری پائیدار طور سے ہوتی ہے۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں یہ شرح 85 فیصد سے زیادہ ہے۔ کڑے بین الاقوامی ضابطوں کے تحت انٹار کٹکا میں 100 فیصد ماہی گیری درست طریقوں سے ہو رہی ہے جن کی بدولت مچھلیوں کے ذخائر کو ضروری تحفظ حاصل ہے۔

تاہم، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مراکش سے خلیج گنی تک افریقہ کے شمال مغربی ساحل کے متوازی مچھلیوں کے تقریباً نصف سے زیادہ ذخائر میں حد سے زیادہ ماہی گیری ہو رہی ہے جن کی بحالی کے امکانات بہت کم ہیں۔

بحیرہ روم اور بحیرہ اسود کی صورتحال کہیں زیادہ خراب ہے جہاں مچھلیوں کے 65 فیصد ذخائر کو حد سے زیادہ ماہی گیری کے نتیجے میں نقصان ہو رہا ہے۔ تاہم، ایک مثبت پیش رفت یہ ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں اس خطے میں ماہی گیری کے لیے جانے والی کشتیوں کی تعداد تقریباً ایک تہائی کم ہو گئی ہے۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ پالیسی میں لائی جانے والی تبدیلیاں ثمر آور ہو رہی ہیں۔

UN News/Fabrice Robinet

بہتر انتظام کی افادیت

مینوئل بارنگا نے کہا کہ جہاں انتظام اچھا ہو گا اور وسائل دستیاب ہوں گے وہاں مچھلیوں کی پیداوار میں دوبارہ اضافہ ہونے لگے گا۔

تاہم، ان کا کہنا تھا کہ سائنسی بنیاد پر مچھلیوں کے ذخائر کو تحفظ دینا مہنگا کام ہے۔ بعض خطے ایسے ڈھانچے سے کام لینے کی استطاعت نہیں رکھتے جس کے ذریعے مچھلیوں کی پیداوار کو ایک خاص حد کے اندر رکھنا اور اس کی نگرانی کرنا ممکن ہو۔ اس مقصد کے لیے سائنس اور اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں کمزور خطوں کی صلاحیت میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور یہ جاننا ہو گا کہ وہاں کون سے مسائل ہیں اور انہیں سمندر میں مچھلیوں کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد دینا ہو گی۔

بام مچھلی کا تحفظ

مینوئل بارنگا نے کہا کہ بام (ٹونا) مچھلی کی نسل کو بچانا اس حوالے سے اہم ترین مثال کہی جا سکتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب یہ معدومیت کے دھانے پر تھی۔ آج دنیا بھر میں اس مچھلی کے 87 فیصد ذخائر سے پائیدار ماہی گیری ہو رہی ہے اور 99 فیصد بام مچھلی انہی ذخائر سے آتی ہے۔ یہ کامیابی بہتر انتظام اور نگرانی کی بدولت ممکن ہوئی۔

'ایف اے او' کی اس رپورٹ کے نتائج پائیدار ماہی گیری کے حوالے سے پالیسی طے کرنے کی غرض سے ہونے والی بات چیت میں معاون ہوں گے۔ ادارے نے دنیا بھر میں مچھلیوں کے انتظام سے متعلق 25 اداروں کے تعاون سے اس معاملے میں احتساب اور اصلاح کو فروغ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی عزم کی موجودگی میں اس طریقے کو ہرجگہ آزمایا جا سکتا ہے۔

UN News/Fabrice Robinet

مچھلی، روزگار اور سمندری معیشت

جمعے کو کانفرنس کے آخری روز سمندروں کے تحفظ سے متعلق ایک سیاسی اعلامیے کی منظوری متوقع ہے جو نیس سمندری لائحہ عمل کا حصہ ہو گا اور اسے عالمگیر حیاتیاتی تحفظ سے متعلق کُنمنگ۔

مانٹریال فریم ورک سے ہم آہنگ کیا جانا ہے۔ 2022 میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت 2030 تک کرہ ارض پر 30 فیصد سمندری اور ارضی علاقوں کے قدرتی ماحول کا تحفظ یقینی بنانے کا ہدف طے کیا گیا تھا۔

مینوئل بارنگا نے کہا کہ دنیا بھر میں 600 ملین لوگوں کی زندگی کا دارومدار ماہی گیری پر ہے۔ بعض ممالک میں آبی جانور ہی پروٹین کے حصول کا واحد ذریعہ ہوتے ہیں۔ اس طرح انسان سمندر سے الگ نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے۔

رپورٹ میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کے پیغام کو دہراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سمندروں کا تحفظ اب بھی ممکن ہے۔ ایک نسل کے عرصہ میں جو کچھ کھویا گیا اسے اگلی نسل میں دوبارہ پایا جا سکتا ہے۔