اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جون 2025ء) ہماری قوم کی جن عادات و اطوار کو فوری طور پر تبدیل ہونا چاہیے، ان میں ایک ہمارا غیر حقیقت پسندانہ ہونا بھی ہے۔ غیر حقیقت پسند ہونے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہم سامنے منہ کھولے حقائق کا ادراک ہی نہیں کر پاتے، جس کی وجہ سے پھر مزید نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس پر مستزاد کہ نقصان اٹھانے کے بعد بھی ہماری توجہ لکیر پیٹنے پر زیادہ مرکوز رہتی ہے۔
ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملا جب گزشتہ دنوں کراچی میں ایک فلیٹ سے ملنے والی لاش ٹی وی کی معروف اداکارہ عائشہ خان کی نکلی اور اس پر اولاد کی نالائقی اور سماج کی بے حسی کا ذکر بہت زیادہ سننے کو ملا۔ اب ہمارے ارد گرد 'مشترکہ خاندانی نظام‘ کے بعد 'اکائی خاندانی نظام‘ مکمل طور پر رائج ہو چکا ہے اور ایسا اکائی خاندانی نظام جس میں والدین یا بزرگوں کی گنجائش بھی نہیں نکل پاتی۔(جاری ہے)
اگر اس حقیقت کو مان لیا جائے کہ ہمارے سماج میں بزرگوں کی تنہائی آج ایک بڑا مسئلہ بن رہی ہے۔ نہ صرف یہ کہ بزرگ اکیلے رہائش پذیر ہیں، بلکہ گھروں کے اندر بھی ان کے ساتھ ایک طرح کا اکیلا پن ضرور پایا جاتا ہے۔
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ضرور سماجی اقدار کا رونا روئیں اور اس کی 'اصلاح‘ کی کوشش بھی کر لیں لیکن تب تک اس مسئلے کے حل کی کاوشیں بھی ساتھ ساتھ کر لینی چاہییں۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے کوششیں کرنے والوں ہی کو مطعون کرنے لگتے ہیں کہ یہ ہمارے مشرقی سماج میں ایسے طور طریقے فروغ دے رہا ہے جو مغربی دنیا میں رائج ہیں جس کے نتیجے میں وہاں فلاں برائی پھیل رہی ہے یا فلاں خرابیاں بڑھ رہی ہیں وغیرہ۔بہت سے بزرگ اپنی عمر کے تقاضے کے سبب یا طبیعت کے عدم برداشت کے سبب از خود بھی تنہا گھروں کو ترجیح دینے لگتے ہیں، یہاں بھی وہی بات ہے کہ بچے ان سے غافل تھے یا باخبر لیکن ان کی موت جس طرح ہوئی ہے اس پر ہم سب کو اب سوچنا چاہیے اور ہمیں اس حوالے سے ضرور کوئی لائحہ عمل بنا لینا چاہیے۔ بزرگوں کی تنہائی تلخ سہی لیکن ایک بہت بڑی سماجی حقیقت بن چکی ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ان کے لیے بڑے پیمانے پر کلب اور اولڈ ہاؤسز بنائے جائیں۔ جہاں انہیں مختلف سرگرمیوں اور ہم عمر لوگوں سے گفت و شنید کے مواقع ملیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی دیکھ بھال کے لیے شفاف اور کھلا انتظام ہونا چاہیے۔ ورنہ ایک بڑی فلاحی تنظیم کے حوالے سے ایک عرصے تک یہی اطلاعات گردش کرتی رہی ہیں کہ اگر کسی لاوارث کو ان کے ہاں چھوڑ دیا جائے تو پھر وہ مر کر ہی باہر نکل پاتا ہے اور اسے اپنے ادارے کے 'ظالمانہ‘ نظام میں شامل کر لیا جاتا ہے۔یہ اطلاعات افواہ تھیں یا حقیقت۔ اس بارے میں کبھی کھل کر چیزیں سامنے نہیں آ سکیں، جہاں اس کو افواہ سمجھنے والے بہت سے لوگ تھے، وہیں اس نیک نام فلاحی ادارے کے حوالے سے اس پر ایمان رکھنے والے بھی بہت بڑی تعداد میں موجود رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بزرگوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے قائم ایسے اداروں کے تعلق سے غلط تاثر بھی قائم نہ ہو اور ان پر نظر بھی رکھی جائے کہ وہ واقعی اپنا کام ٹھیک طرح کر رہے ہیں یا نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کی نجی زندگی میں مداخلت کے حوالے سے بھی سماج کی تربیت کی ضرورت ہے۔ اب ”میری زندگی میری مرضی" کی سخت سوچ پر نظر ثانی کی جا رہی ہے۔سماجی ماہرین یہ تجویز کر رہے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ہم کسی کی ذاتی زندگی اور نجی معاملات میں مداخلت نہ کریں لیکن جہاں کسی نہ کسی وجہ سے کسی فرد کی صورت حال سنگین محسوس ہو یا ایسا لگے کہ انہیں اب کسی اور کی مدد کی ضرورت ہے تو برائے کرم کسی سنگین المیے کا انتظار نہ کریں۔
اب چاہے وہ آپ کا ہمکار ہو، دوست یا کوئی ہمسایہ۔ آپ اس کے پاس ضرور جائیں اور اس کے بدلے میں اگر وہ جھڑک بھی دے تو اس پر دل برداشتہ نہ ہوں بلکہ خود کو ایسی ذمہ داری پر فائز سمجھیں جو آپ کو بہ حیثیت ذمہ دار انسان اور ایک شہری کے ادا کرنی ہیں تا کہ مستقبل میں ایسے کسی حادثے سے سے بچا جا سکے۔حکومتی سطح پر بھی معمر افراد کے لیے بہت زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے، ان کے لیے نہ صرف ادارے بنائے جائیں، بلکہ ان کے لیے ٹاﺅن کی سطح پر ایسے شیلٹر بنائے جائیں، جہاں ضروری نہیں ہے کہ ان کو کوئی چھوڑ کر جائے، بلکہ وہ آزادی سے وہاں جا کر قیام کر سکیں۔
چاہیں تو رات کو بھی ٹھیریں اور چاہیں تو دن کا کچھ وقت وہاں گزاریں۔ ان کے مطالعے کے لیے لائبریری ہو، ان کے طبی معائنے اور روز مرہ کی سرگرمیوں کے حوالے سے رہنمائی کا باقاعدہ انتظام ہو۔ اگر وہ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے لیے بھی انھیں سہولت پہنچائی جائے۔ ان کے لیے مخصوص پارک ہوں، عام پارکوں میں ان کے لیے خصوصی زون قائم ہوں، جہاں انہیں محسوس ہو کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔عملی طور پر صورت حال دیکھیے تو حالیہ بجٹ میں سرکاری ملازم کی بیوہ کے لیے پینشن ہی 10 برس تک محدود کر دی گئی ہے۔ یہ اقدام بھی بزرگوں کے حوالے سے بہت سے مسائل کا باعث بنے گا۔ اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، ساتھ ہی بزرگوں کے حوالے سے عام شعور بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے، جیسے پہلے بہت عام تھا کہ مسافر بسوں میں کسی بزرگ کو دیکھ کر نوجوان، بچے اور ان سے کم عمر افراد فوراً نشست خالی کر دیا کرتے تھے، اب صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ بزرگ کھڑے ہوتے ہیں اور نوجوان بہت سکون سے اپنے موبائل میں مصروف دکھائی دیتے ہیں، کہنے کو یہ ایک چھوٹی سی بات ہے، لیکن سماج میں بزرگوں کے حوالے سے عام رویے اور سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔
جب ذرائع ابلاغ میں بزرگوں کے حوالے سے خصوصی پیغامات نشر ہوں گے، ان کی تنہائی اور ان کی اس عمر کی سوچ اور پچھتاوؤں کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے گا، تو یقیناً بزرگوں کے حوالے سے عائشہ خان جیسے المیوں میں کمی واقع ہو گی۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔