اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) پاکستان میں ایک سترہ سالہ ٹک ٹاک اسٹار کو گولی مار کر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار ملزم پر باضابطہ طور پر فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے۔ قتل کی یہ واردات اس وقت ہوئی تھی، جب مقتولہ نے بار بار ملزم کی پیش قدمیوں کو مسترد کر دیا تھا۔
جون میں ہونے والے اس قتل کی ملک گیر مذمت کی گئی تھی اور اس کے بعد خواتین کی آن لائن پلیٹ فارمز پر سلامتی سے متعلق ایک بار پھر بحث چھڑ گئی، خاص طور پر اس وقت جب تعزیتی پیغامات کے ساتھ ساتھ کچھ آن لائن تبصروں نے مقتولہ کو ہی اس کی موت کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔
22 سالہ ملزم عمر حیات نے ہفتے کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں خود کو بے قصور قرار دیا۔ جج محمد افضل مجوکہ کے سامنے ملزم کا کہنا تھا، ’’میرے خلاف تمام الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘
ثناء یوسف کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، بشمول ٹک ٹاک، پر دس لاکھ سے زائد فالوورز تھے، جہاں وہ اپنی پسندیدہ کیفے، اسکن کیئر مصنوعات اور روایتی ملبوسات سے متعلق ویڈیوز شیئر کرتی تھیں۔
پاکستان میں ٹک ٹاک انتہائی مقبول ہے، اور اس کی ایک وجہ اس ایپ کی کم شرح خواندگی والی آبادی کے ایک بڑے حصے تک رسائی ہے۔ خواتین کے لیے یہ پلیٹ فارم فالورز کے ساتھ ساتھ آمدنی کا ذریعہ بھی بنا ہے، جو اس ملک میں کم ہی دستیاب ہے، جہاں چوتھائی سے بھی کم خواتین باضابطہ معیشت کا حصہ ہیں۔
پولیس نے اس واقعے کو ’’وحشیانہ قتل اور بہیمانہ واردات‘‘ قرار دیا اور الزام لگایا ہے کہ عمر حیات نے ثناء کو بار بار انکار کیے جانے کے بعد قتل کیا۔
ایک ایسے معاشرے میں، جہاں خواتین کے رویے کو ''غیرت‘‘کے پیمانے سے پرکھا جاتا ہے، وہاں بعض سوشل میڈیا صارفین نے اپنے تبصروں میں اس قتل کو ''جائز‘‘ بھی قرار دیا۔ مثال کے طور پر ایک کمنٹ میں لکھا گیا، ’’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔‘‘
انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے مطابق ملک میں خواتین کے خلاف تشدد عام ہے اور شادی کی پیشکش مسترد کیے جانے کے بعد خواتین پر حملوں کے واقعات غیر معمولی نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ 2021 میں 27 سالہ نور مقدم کو ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری ظاہر جعفر نے اس وقت بے دردی سے قتل کر دیا تھا، جب انہوں نے ملزم سے شادی کرنے سے انکار کیا۔ یہ واقعہ بھی ملک بھر میں شدید غم و غصے کا باعث بنا تھا۔