وفاق کی جانب سے بلوچستان کے ڈیوز بل کی مد میں کم پیسے ملنا آئین، ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی خلاف ورزی ہے، چیئرمین پی اے سی افغر علی ترین

منگل 16 ستمبر 2025 19:55

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 ستمبر2025ء)پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس کمیٹی روم میں چیئرمین کمیٹی اصغر علی ترین کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں محکمہ صنعت و تجارت کے معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں کمیٹی ارکان رحمت صالح بلوچ، ولی محمد نورزئی، زابد علی ریکی، غلام دستگیر بادینی اور صفیہ بی بی نے شرکت کی۔اجلاس میں اکاؤنٹنٹ جنرل بلوچستان نصراللہ جان، ڈائریکٹر جنرل آڈٹ شجاع علی، سیکرٹری صنعت و تجارت اور ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی بھی شریک ہوئے۔

کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ محکمہ صنعت و تجارت کا بنیادی مقصد بلوچستان میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے تاکہ ایک جانب روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور دوسری جانب قومی خزانے میں محصولات میں اضافہ ہو۔

(جاری ہے)

اس مقصد کے تحت صوبے میں مختلف صنعتی اسٹیٹس قائم کیے گئے ہیں جن میں کوئٹہ انڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ اسٹیٹ، ڈیرہ مراد جمالی، لسبیلہ، حب، گوادر، ماربل سٹی گڈانی اور وندر انڈسٹریل اسٹیٹ شامل ہیں۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ مالی سال 22-2021 کے دوران محکمہ کو کل 2,536.333 ملین روپے کی گرانٹ دی گئی جس کے مقابلے میں 2,339.995 ملین روپے خرچ کیے گئے، یوں 196.338 ملین روپے کی بچت/عدم استعمال ہوا جسے سرنڈر نہیں کیا گیا، جس سے بجٹ سازی میں کمزوری اور مالی بے ضابطگی ظاہر ہوتی ہے۔اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ محکمہ صنعت و تجارت کی جانب سے الاٹیز سے 62.522 ملین روپے گراؤنڈ رینٹ وصول نہیں کیا گیا جس کے باعث سرکاری آمدن کو نقصان پہنچا۔

آڈٹ حکام نے نشاندہی کی کہ اس معاملے میں متعدد بار یاد دہانی کرائی گئی لیکن محکمانہ سطح پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ کمیٹی نے ہدایت کی کہ واجبات فوری طور پر ریکور کر کے آڈٹ کو اطلاع دی جائے۔مزید برآں محکمہ صنعت و تجارت میں بعض ٹھیکیداروں کو غلط ریٹس اور غیر مجاز کاموں کی مد میں 5.131 ملین روپے زائد ادائیگیاں کی گئیں۔ چیئرمین کمیٹی نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زائد ادائیگی قواعد کے منافی ہے اور اس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے سختی سے ہدایت کی کہ اضافی ادائیگیوں کی فوری وصولی عمل میں لائی جائے۔اجلاس کے دوسرے حصے میں اکاؤنٹنٹ جنرل بلوچستان کی آڈٹ رپورٹ پر مالی انتظامی امور کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت سے بلوچستان کے حصے کے طور پر ڈیوزبل پول سے 11,151.033 ملین روپے کم موصول ہوئے، جو کہ آئین اور ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی خلاف ورزی ہے۔

اس پر کمیٹی نے سیکرٹری خزانہ کی غیرحاضری پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ اتنے بڑے مالیاتی معاملے پر سیکرٹری کا غیر حاضر ہونا ناقابل قبول ہے۔ کمیٹی نے ڈائریکٹر جنرل آڈٹ کو ہدایت کی کہ اس رقم کی وصولی کی تصدیق کی جائے۔اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس اور نیشنل بینک کے درمیان 6,999.278 ملین روپے کے تصفیہ (Reconciliation) میں فرق پایا گیا ہے۔

کمیٹی نے اس سنگین مالی بے ضابطگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اتنے برسوں میں اس فرق ختم نہیں کیا گیا تو بڑے مالی معاملات کو کیسے درست کیا جا سکتا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سیکرٹری خزانہ کو کل دوپہر ایک بجے طلب کیا جائے تاکہ وہ کمیٹی کو آگاہ کریں کہ وہ reconciliation کو کب تک مکمل کرینگے اور انھیں اس کام کو مکمل ہونے میں مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔اجلاس کے اختتام پر چیئرمین کمیٹی نے تمام محکموں کو سختی سے ہدایت کی کہ ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی (DAC) کے اجلاس وقت پر منعقد کیے جائیں اور تمام بے ضابطگیوں کو بروقت دور کیا جائے، بصورت دیگر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سخت فیصلے کرنے پر مجبور ہوگی۔