اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 ستمبر 2025ء) ستمبر کی ایک صبح پیرس کے قلب میں واقع جیول مسجد کی دہلیز پر خون میں لت پت خنزیر کا سر ملا۔ اس سر پر نیلی سیاہی میں ایک نام بھی تحریر تھا: ’ماکروں‘
پیرس میں آئیفل ٹاور سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر یہ مسجد لبنان ، الجزائر، ایران اور دیگر ممالک سے آنے والے مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے اور جب وہ فجر کی نماز کے لیے مسجد کے دروازے پر پہنچے تو انہیں یہ سر ملا۔
جب پولیس تفتیش کے لیے پہنچی تو معلوم ہوا کہ صرف اسی مسجد کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ہے، بلکہ پیرس اور اس کے آس پاس کے نواحی علاقوں کی مساجد کی دہلیز پر خنزیر کے 9 کٹے ہوئے سر بکھرے ہوئے تھے۔
یہ واقعات نو اور دس ستمبر کی درمیانی شب رونما ہوئے تھے اور فرانسیسی حکام اب اس معاملے میں بیرونی مداخلت کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
بیرونی ملک کے شہریوں پر شبہہ
پیرس کے پراسیکیوٹر کے دفتر کا کہنا ہے کہ پولیس کی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ غیر ملکیی شہریوں نے خنزیر کے یہ سر مساجد کے احاطے میں رکھے تھے، جو پیرس اور اس کے آس پاس کم از کم نو مساجد کے باہر پائے گئے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حکام کے بیان میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ سور کے سروں کو ’’وہاں غیر ملکی شہریوں نے رکھا تھا، جو فوری طور پر ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ واضح طور پر ان کا مقصد اور ارادہ ملک کے اندر بدامنی پھیلانے کا تھا۔‘‘
پیرس میں حکام نے مزید کہا، ’’نارمنڈی کے ایک کسان نے تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ دو لوگ اُس سے ایک درجن خنزیر کے سر خریدنے آئے تھے اور ان کی گاڑی کے بارے میں بھی بتایا، جس پر سربیا کی نمبر پلیٹیں تھیں۔
‘‘حکام کے مطابق سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی دیکھا گیا ہے کہ یہی لوگ پیر آٹھ ستمبر سے منگل نو ستمبر کی رات کے دوران ایک ہی گاڑی میں پیرس پہنچے تھے۔
سی سی ٹی وی کے فوٹیج میں دو افراد کو کئی مساجد کے سامنے خنزیر کے سر کو چھوڑتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ انہوں نے کروشیا کی ٹیلی فون لائن استعمال کی تھی، جس کا سراغ جرائم کے ارتکاب کی صبح ان کے فرانس اور بیلجیئم کی سرحد عبور کرنے کے بعد ملا۔
مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی کوشش
یہ واقعات ایسے وقت میں سامنے آئے، جب فرانس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ رواں برس کے پہلے پانچ مہینوں کے دوران فرانس میں 145 اسلامو فوبک واقعات درج کیے جا چکے ہیں، جو پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 75 فیصد زیادہ ہیں۔
فرانسیسی حکام نے اس واقعے کے بعد ملک کی مسلم آبادی کے لیے اسلام مخالف جذبات میں اضافے کے وقت اپنی حمایت کا وعدہ دہرایا ہے۔
فرانس میں مسلمانوں کی یورپ کی سب سے بڑی آبادی ہے، جہاں 60 لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں اور جن کے لیے سور کا گوشت کھانا حرام ہے۔وزیر داخلہ برونو ریٹیلیو نے ان کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ’’اشتعال انگیز‘‘ اور ’’بالکل ناقابل قبول‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، ’’میں چاہتا ہوں کہ ہمارے مسلمان ہم وطن امن کے ساتھ اپنے عقیدے پر عمل پیرا رہیں۔
‘‘پیرس کی گرینڈ مسجد کے ریکٹر چیمس ایڈین حافظ نے ’’اسلامو فوبک کارروائیوں‘‘ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’’مسلم مخالف نفرت کے عروج کا ایک نیا اور افسوسناک مرحلہ قرار دیا اور ان واقعات کی خطرناک رفتار کے خلاف بیداری اور قومی یکجہتی‘‘ کے مظاہرے کا مطالبہ کیا۔
فرانس نے روس پر ماضی میں اختلافات کے بیج بونے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا تھا۔ مئی میں عبادت گاہوں اور ہولوکاسٹ کی یادگار کو سبز رنگ سے خراب کرنے کے بعد تین سربیائی باشندوں کو ’’غیر ملکی طاقت‘‘ سے تعلق کے الزام میں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
ادارت: کشور مصطفی